Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور آپ ان سے دو شخصوں کا حال بیان کیجیے، ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دئیے اور ان کو ہم نے کھجور کے درختوں سے گھیر دیا اور ان دونوں کے درمیان ہم نے کھیتی بھی اگا دی تھی
عبرت کے لیے دو شخصوں کی مثال، ان میں ایک باغ والا اور دوسرا غریب تھا ان آیات میں ایک واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں ایک باغ والے کافر و مشرک اور دوسرے مومن موحد کی گفتگو نقل فرمائی ہے۔ علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ 161 ج 3 میں لکھتے ہیں کہ یہ آیات اہل مکہ میں سے دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئیں دونوں بنی مخزوم میں سے تھے۔ ایک تو حضرت ابو سلمہ ؓ تھے جو رسول اللہ ﷺ سے پہلے حضرت ام سلمہ ؓ کے شوہر تھے اور دوسرا شخص جو کافر تھا وہ اسود بن عبد الاسد تھا یہ ایک قول ہے۔ دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل میں سے دو شخصوں کا ہے جو آپس میں دونوں بھائی تھے ایک مومن تھا اور ایک کافر تھا اس واقعہ کو بطور مثال فریق اول عیینہ بن حصین اور اس کے ساتھیوں اور فریق دوم حضرت سلمان فارسی اور ان کے ساتھیوں ( رض) کے بارے میں ذکر فرمایا (یاد رہے کہ عیینہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یوں کہا تھا کہ آپ ان غریبوں اور مسکینوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیجیے تاکہ ہم آپ کے پاس بیٹھ سکیں۔ ) صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ آیات بالا میں جن دو شخصوں کا ذکر فرمایا ہے یہ بنی اسرائیل میں سے ایک بادشاہ کے بیٹے تھے، ایک نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور دوسرے شخص نے کفر اختیار کیا اور وہ دنیا کی زینت میں مشغول ہوگیا اور مال کو بڑھانے میں لگ گیا واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال دیا اس کے انگور کے دو باغ تھے اور ان دونوں باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے۔ جنہوں نے باڑ کی طرح سے ان دونوں باغوں کو گھیر رکھا تھا۔ ان دونوں باغوں میں کھیتی بھی تھی، درختوں کے پھلوں اور کھیتی کی پیداوار سے وہ بڑا مالدار بنا ہوا تھا ان باغوں کے درمیان نہر بھی جاری تھی دونوں باغ بھرپور پھل دیتے تھے ذرا سی بھی کمی نہ ہوتی تھی۔ یہ تو باغ والے کا حال تھا (جو اوپر مذکور ہوا) اس کے احوال کے برخلاف ایک دوسرا شخص تھا، وہ مال اور آل و اولاد کے اعتبار سے زیادہ حیثیت والا نہ تھا، جس شخص کے باغ تھے اسے بڑا غرور تھا اس نے اپنے اس کم حیثیت والے ساتھی سے کہا کہ میں مال کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ ہوں اور افراد کے اعتبار سے تجھ سے بڑھ کر ہوں کیونکہ میری جماعت زبردست ہے، اول تو اس نے اس کم حیثیت والے ساتھی سے تکبر اور تفاخر سے خطاب کیا اور دوسرا کام یہ کیا کہ وہ اپنے باغ میں اپنے نفس پر ظلم کرنے کی حالت میں یعنی کفر پر قائم ہوتے ہوئے داخل ہوا وہاں بھی اس نے وہی کفر کیا اور کفران نعمت کی باتیں کیں کہنے لگا کہ میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ میرا یہ باغ کبھی بھی برباد ہوگا اور یہ جو قیامت قائم ہونے والی باتیں کرتے ہو یہ یوں ہی کہنے کی باتیں ہیں میرے خیال میں تو قیامت قائم ہونے والی نہیں۔ فرض کرو کہ اگر قیامت آہی گئی اور میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو اس دنیا میں جو میرا باغ ہے مجھے وہاں اس سے بڑھ کر بہت زیادہ اچھی جگہ ملے گی۔ دنیا والوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کافر اور فاجر ہوتے ہوئے یوں سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقبول بندے ہیں جب اس نے ہمیں یہاں دولت دی ہے تو وہاں بھی ہمیں خوب زیادہ نعمت و دولت ملے گی، یہ لوگ قیامت کو مانتے تو نہیں ہیں لیکن اہل ایمان سے قیامت کی باتیں سن کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ اگر بالفرض قیامت آ ہی گئی تو وہاں بھی ہماری نوازش میں کوئی کمی نہ ہوگی یہ نہیں جانتے کہ وہاں جو کچھ ملے گا ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے ملے گا چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیم اور تبلیغ کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ اس لیے روز جزاء میں جو نعمتیں ملیں گی، ان نعمتوں کے ملنے کے قانون سے واقف نہیں ہوتے اور بہت سی مرتبہ حقیقت جانتے ہوئے بھی اہل ایمان کے سامنے منہ زوری کرکے اپنے آپ کو دونوں جہانوں میں برتر اور بہتر بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ہی خیال جما لیتے ہیں کہ ہم یہاں بھی بہتر ہیں وہاں بھی بہتر ہوں گے۔ وہ جو اس کا ساتھی تھا جس سے اس نے فخر اور تمکنت کی باتیں کی تھیں اور اسے اپنے سے گھٹیا بتایا تھا اس نے اول تو اسے عار دلائی اور ایک اچھے انداز میں اس کی نادانی اور بےوقوفی پر متنبہ کیا اور کہا کہ جس ذات پاک نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا فرمایا پھر تجھے صحیح سالم آدمی بنا دیا کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا یعنی تجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، چونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے جو ہر انسان کے باپ ہیں اور پھر ہر انسان مادہ قریبہ یعنی نطفہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جو رحم مادر میں جاتا ہے اس لیے مادہ بعیدہ اور قریبیہ دونوں کو ذکر کردیا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ دیکھ رحم مادر میں نطفہ پہنچ کر جو بچہ بن کر باہر آتا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ ٹھیک ہو اور اس کے اعضاء صحیح سالم ہوں تجھے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تیرے اعضاء کو صحیح سالم بنایا اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تجھے مرد بنایا، بجائے مومن بندہ بننے کے تو کافر ہوگیا۔ تف ہے ایسی سمجھ پر اس کے بعد اس مومن بندہ نے اپنا عقیدہ بتایا اور یوں کہا کہ اللہ میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اس میں اپنے دین و عقیدہ کا اعلان بھی ہے اور مخاطب پر تعریض بھی ہے کہ تو مشرک ہے اور مشرک ہونا بدترین چیز ہے، اس کے بعد اس مومن موحد نے اپنے مخاطب سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو تجھے باغ کی نعمت دی ہے تجھے اس نعمت پر شکر گزار ہونا چاہیے باغ میں جاکر تو نے یوں کہا کہ میرے خیال میں یہ باغ کبھی برباد نہ ہوگا اور تو قیامت آنے کا بھی منکر ہوگیا اس کے بجائے تجھے یوں کہنا چاہیے تھا کہ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ (یعنی اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور اللہ کی مدد کے بغیر کوئی قوت نہیں) یہ باغ صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وجود میں آیا ہے اسی نے تجھے اس پر قبضہ دیا ہے جب وہ چاہے گا اسے برباد کردے گا اور تو دیکھتا رہ جائے گا، رہی یہ بات کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں تو یہ بات میرے لیے کوئی غمگین اور متفکر ہونے کی نہیں ہے مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عنقریب تیرے باغ سے بہتر باغ عطا فرما دے گا دنیا میں ہو یا آخرت میں یا دونوں میں، اور وہ وقت بھی دور نہیں معلوم ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے اور تیرا باغ ایک صاف میدان ہو کر رہ جائے، یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے پھر تو اس پانی کو طلب کرنے کی کوشش بھی نہ کرسکے، مطلب یہ ہے کہ تو جو یہ کہتا ہے کہ میرا باغ ہمیشہ رہے گا یہ اس لیے کہتا ہے کہ اسباب ظاہرہ موجود ہیں سیراب کرنے کے لیے پانی ہے باغ کی سینچائی کے لیے آدمی موجود ہیں۔ یہ تیری بھول ہے جس ذات پاک نے تجھے یہ باغ دیا ہے وہ اس پر قادر ہے کہ آسمان سے اس پر کوئی آفت بھیج دے۔ پھر نہ کوئی درخت رہے نہ ٹہنی نہ برگ رہے نہ بار، اسے اس بات پر بھی قدرت ہے کہ جس پانی پر تجھے گھمنڈ ہے وہ اس پانی کو اندر زمین سے دور پہنچا دے اور یہ پانی اتنی دور چلا جائے کہ تو اسے محنت اور کوشش کرکے دوبارہ اپنی کھیتی کی سطح تک لانے کی ہمت نہ کرسکے۔ مومن و موحد بندہ نے جو کافر و مشرک ناشکرے کو شرک چھوڑنے اور توحید اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ماننے اور اس کی گرفت سے بچنے کی تلقین کی تھی اس پر اس کافر نے دھیان نہ دیا عذاب آ ہی گیا۔ اور اس کے پاس جو مال تھا اور مالدار بننے کے جو اسباب تھے ان سب کو ایک آفت نے گھیر لیا بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ایک آگ تھی جس نے اس کی مالیت کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اب تو یہ شخص حیران کھڑا رہ گیا اور اپنے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا اس پر اپنے ہاتھ کو الٹتا پلٹتا رہ گیا اس کا باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا ہوا تھا (یعنی جن ٹٹیوں پر انگور وغیرہ کی بیلیں چڑھاتے ہیں وہ جل کر گرگئی تھیں پھر اوپر سے پورا باغ ہی جل کر ان ٹٹیوں پر گرگیا ) وہ شخص افسوس کر رہا تھا، کبھی یوں ہاتھ پیٹتا تھا اور کبھی یوں، اور کہتا تھا کہ ہائے افسوس میں اس باغ پر مال خرچ نہ کرتا جیسا تھا ویسے ہی بڑھتا رہتا۔ اگر اس پر مال نہ خرچ کرتا تو باغ جل جاتا مگر مال تو رہ جاتا، باغ بھی ہلاک ہوا اور جو کچھ اس پر لگایا تھا وہ بھی گیا اب اسے اپنے مومن ساتھی کی نصیحت یاد آئی اور کہنے لگا (یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبّْیْٓ اَحَدًا) (ہائے کاش کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ ) باغ کی بربادی اور صاحب باغ کی حسرت بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ شانہ نے اس کی عاجزی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ فِءَۃٌ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) (اور اللہ کے سوا اس کے پاس کوئی جماعت اور جتھا نہ تھا جو اس کی مدد کرتے) (وَ مَا کَانَ مُنْتَصِرًا) (اور وہ بدلہ لینے والا نہ تھا) اتنی بڑی آفت کسی پر نازل ہوجائے تو وہ تو مخلوق سے بھی بدلہ لینے سے عاجز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی شخص بدلہ لے ہی نہیں سکتا۔ اللہ نے اس پر کفر و شرک کی وجہ سے عذاب بھیجا اور وہ اس حال میں ہوگیا کہ کسی طرح کہیں سے بھی مدد پاکر کسی طرح کا بدلہ لینے کے قابل نہ رہا۔ یاد رہے کہ رکوع کے شروع میں دو باغوں کا تذکرہ فرمایا تھا لیکن بعد میں ایک ہی باغ کا ذکر فرمایا یہ بطور جنس کے ہے جو دونوں باغوں کو شامل ہے اور جب باغ برباد ہوئے تو کھیتی بھی ختم ہوئی اور جن افراد پر اسے گھمنڈ تھا ان کی قوت اور شوکت بھی دھری رہ گئی کیونکہ جماعت اور جتھا بھی اسی وقت کام آتا ہے جب ان پر خرچ کرنے کے لیے مال موجود ہو، آخر میں فرمایا (ھُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ ) ایسے موقع پر مدد کرنا اللہ ہی کا کام ہے جو حق ہے (وہ بندوں کے اموال کو تباہ کرکے پھر سے عطا فرما سکتا ہے) (ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ عُقْبًا) (وہ ثواب کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے) مطلب یہ ہے کہ اپنے اموال کو اللہ پاک کی رضا مندی کے لیے خرچ کریں وہ اچھے سے اچھا بدلہ دے گا اور جو کچھ اس کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے گا، اس کا انجام بھی سب سے اچھا ہوگا۔ اس میں یہ بتادیا کہ مومن بندوں کا اگر کوئی نقصان ہو بھی جائے تو انجام کے اعتبار سے اسے کوئی خسارہ یا نقصان نہیں کیونکہ وہ دونوں جہان میں یا کم از کم آخرت میں اس کا بدلہ پالے گا اور آخرت میں جو کچھ ملے گا اس کا اس دنیا میں حساب نہیں لگایا جاسکتا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورت کو اس کے جان میں اور مال اور اولاد میں تکلیف پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس کا ایک گناہ بھی باقی نہ رہے گا (تکلیفوں کی وجہ سے سب گناہ دھل چکے ہوں گے۔ ) (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ صفحہ 136) فائدہ : گزشتہ رکوع میں ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے دنیاوی اموال پر فخر کرتے ہوئے اور بڑائی جتاتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں یہ بات پیش کی تھی کہ آپ غرباء مسلمین کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوجایا کریں اور یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ ضعفاء مسلمین کو حقیر سمجھتے تھے اور انہیں اس لائق نہیں جانتے تھے کہ خود ان کے ساتھ بیٹھیں ان لوگوں کی خواہش اور فرمائش کا تذکرہ کرنے کے بعد اول تو دوزخ کا عذاب بتایا جس میں کافر مبتلا ہوں گے پھر جنت کی نعمتیں ذکر فرمائیں جو مومنوں کو ملیں گی۔ اس کے بعد باغ والے کافر کا قصہ بیان فرمایا جسے ایک مومن بندہ نے سمجھایا تھا لیکن وہ کافر نہ مانا، عذاب آیا اور اس کا مال تباہ و برباد ہوگیا۔ اس قصہ میں بہت بڑی عبرت ہے کوئی شخص اپنے مال پر گھمنڈ نہ کرے اللہ کا مومن بندہ بنے اور جن مومن بندوں کے پاس مال نہیں ہے انہیں حقیر نہ جانے اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہ کرے، ناشکری کی وجہ سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں پھر ایسے وقت میں کوئی مددگار نہیں ہوتا۔
Top