Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 187
وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ مَا كَانَ مُنْتَصِرًاؕ
وَلَمْ تَكُنْ : اور نہ ہوتی لَّهٗ : اس کے لیے فِئَةٌ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : اس کی مدد کرتی وہ مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَمَا : اور نہ كَانَ : وہ تھا مُنْتَصِرًا : بدلہ لینے کے قابل
روزہ کے دنوں میں رات کے وقت اپنی ازدواجی زندگی کی خواہش کی تکمیل چاہیں تو بیشک کریں کیونکہ تم ان کے رازداں ہو اور وہ تمہاری رازداں ہیں اللہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ تم اپنے اندر ایک بات کا خیال رکھ کر پھر اس میں خیانت کرتے رہو ، پس اس نے تمہاری ندامت و شرمندگی قبول کرلی اور جو تم کو غلطی محسوس ہوئی معاف فرمادی اور اب تم ازدواجی زندگی کی خواہش پوری کرنا چاہتے ہو تو کرو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے مقرر کردیا ہے اس کے خواہشمند ہو اور حلال و طیب چیزیں کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی کالی دھاری سے نمایاں ہوجائے پھر اس وقت سے لے کر رات آنے تک روزے کو پورا کرو ، ہاں ! اگر تم مسجد میں اعتکاف کر رہے ہو تو اس حالت میں ازدواجی زندگی کی خواہش پوری کرنے کی ممانعت ہے ، یاد رکھو یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں پس ان سے دور رہنا چاہئے ، اللہ اسی طرح اپنے احکام واضح کردیتا ہے تاکہ لوگ پرہیزگاری اختیار کریں
رمضان کی راتوں میں فرصت کے اوقات ہوں تو ازدواجی تعلق کی ممانعت نہیں : 317: روزہ کے دو مقاصد کا تذکرہ گذشتہ آیات میں کیا گیا ہے اب تیسرے مقصد یعنی قانون کی پابندی پر بحث کی جاتی ہے کہ جو قانون صحیح اس کو دیا جائے گا بلا چون و چرا اس پر عمل کرنے کو تیار ہو تاکہ بد نظمی نہ ہونے پائے۔ اس جذبہ کی تربیت اور تکمیل حسب ذیل احکام سے کی جائے گی۔ اگر روزوں میں مشکل احکام کی پابندی کا اپنے آپ کو عادی بنا لیا تو پھر خواہ کیسا ہی سخت سے سخت اور وقت طلب قانون دیا جائے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ مسلمانوں کو دنیا بھر میں حق و صداقت کی نشر و اشاعت کرنا ہے۔ ہر قوم ان کی مخالفت کرے گی اور ان کو مٹا دینے کی فکر میں رہے گی ان مخالفین ومعاندین کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے خود مسلمانوں کو بھی تیار رہنا ہوگا۔ اس جنگی جذبہ کو بھڑکانے اور تیز کرنے کے لئے وافر کھانے پینے کی ضرورت ہوگی تاکہ تنومند اور صحت مند نوجوان بنیں اور فطری چیز ہے کہ جب قوت پیدا ہوتی ہے تو ہر قوت کا مصرف اپنا اپنا ہوتا ہے۔ قوت پیدا ہونے کے ساتھ ہی نکاح کی بھی ضرورت طبعی پیش آئے گی اگر یہود و نصاریٰ کی طرح اس قوت کو دبایا گیا تو وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جو یہود و نصاریٰ میں پیدا ہوئیں ۔ کیا مسلمان بھی رہبانیت اختیار کریں ہے ؟ فرمایا ہرگز نہیں ، ماہ رمضان میں شب کے وقت اگر فرصت کے اوقات ہوں تو تم اپنی بیویوں کے پاس جاسکتے ہو اس سے ایک تو تمہارے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے گا اور دوسرے اپنی ظاہری وجاہت اور زینت کو محفوظ رکھ سکو گے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہوتا رسول اللہ ﷺ اہل کتاب کا اتباع کیا کرتے تھے۔ چناچہ نزول رمضان سے قبل مدینہ میں آپ ﷺ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے نصاریٰ کا روزہ آٹھ پہر کا ہوتا تھا یا نصاریٰ نے مسلمانوں کو ضرور کہا ہوگا کہ ان کا روزہ آٹھ پہر کا ہوتا ہے۔ مسلمان بھی ان کی دیکھا دیکھی صلوٰۃ عشاء تک کھا پی لیتے تھے اس کے بعد روزہ گویا شروع ہوجاتا یا کم از کم ازواجی فعل کو ممنوع خیال کرتے تھے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ تھا۔ جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو اس وقت بھی ان کا وہی دستور رہا جو پہلے نفلی روزوں میں اپنا لیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات مشکل ضرور تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نظر رحمت فرمائی اور مسلمانوں کو پوری وضاحت سے فرما دیا کہ دیکھو رات کا کھانا پینا اور اپنی بیویوں سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہے اور اس فعل فطری کا منشاء یہ ہے کہ اولاد پیدا ہو تاکہ مسلمانوں کی جماعت میں ترقی ہو اور ساتھ ہی تمہارے مقاصد حیات کی بھی تکمیل ہوجائے۔ ازدواجی زندگی کے لیے لباس کے الفاظ کی خوبی : 318: ظاہر ہے کہ لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا۔ یعنی دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ جب ایک دوسرے کے زوج ہوگئے تو دونوں کے درمیان اب پردہ کیا رہ گیا ؟ اس کو دراصل پوشیدہ راز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک ایسا راز ہے جو کسی دوسرے قریب سے قریب تر رشتہ میں بھی نہیں۔ ازدواجی زندگی کا اصل مقصد اسلام کی نظر میں : 319: ازدواجی زندگی کا اصل راز یا اصل مقصد صرف شہوت پرستی نہیں بلکہ نیک اولاد کی خواہش ہے۔ اسلام کے نزدیک نیک اولاد کی خواہش انسان کا اصل مقصد ہونا چاہئے اور ازالہ شہوت تو ہو ہی جائے گا۔ اس خواہش میں بہت سی چیزیں پوشیدہ ہیں اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں انسان کا کوئی فعل بےکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر فعل کا کوئی مقصد اور مدعا ہونا ضروری ہے اور پھر جتنا مقصد بلند ہوگا اتنی ہی اس کی خواہش یا چاہت اچھی ہوگی۔ اب اللہ نے اس ازدواجی فعل کے نتیجہ میں صرف ازالہ خواہش ہی نہیں رکھا بلکہ اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز بھی اس فعل کے نتیجہ میں ملتی ہے ۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اولاد کی تلاش اور خواہش کے لئے جب ازدواجی وظیفہ ادا ہوگا تو یہ ایک بلند مقصد ہے ازالہ خواہش کے مقابلہ میں۔ روزہ کی حدود کا اعلان الٰہی : 320: اس میں یہ بتا دیا گیا کہ کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے کس وقت تک انسان کو رکنا چاہیے ” الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ “ کے معنی تو سفید دھاگہ ہیں لیکن اس جگہ مراد صبح کی سفید دھاری ہے جس کو صبح کو سپیدی یا صبح صادق کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ دن کی سفیدی رات کی سیاہی سے الگ ہوجائے یعنی دونوں میں امتیاز کی لکیر ظاہر ہوجائے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ نے سیاہ اور سفید دھاگا پاس رکھ کر وقت کا اندازہ لگانا چاہا کہ جب سفید دھاگے اور سیاہ میں امتیاز ہوگا تو گویا وہ سمجھے کہ اب روزہ کا وقت شروع ہوگیا۔ لیکن یہ بات سن کر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : (انما ذلک بیاض النھار وسواد الیل) پس حدود روزہ متعین ہوگئیں کہ ابتدائی وقت کا روزہ وہ ہے جسے ہماری زبان میں صبح صادق یا پو پھٹنا کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے اور انتہائی وقت ” اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ 1ۚ“ رات کے شروع ہوجانے تک ہے اور رات غروب آفتاب سے شروع ہوجاتی ہے اس لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ کا وقت متعین ہوگیا جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو لوگ ستاروں کے نکلنے یا رات کی سیاہی آنے کا انتظار کرتے ہیں وہ دراصل ” لیل “ کے اصل معنوں سے ناواقف ہیں یا صرف فرقہ بندی کو ہوا دینے کے لئے ضد یا ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اس طرح حدود وقت متعین کرنے میں ایک وسعت موجود ہے لہٰذا ایک دو منٹ دیر ہوجانے سے کوئی قیامت بپا نہیں ہوجاتی اور جان بوجھ کر اگر کسی طرف سے لیٹ نہ کیا جائے تو وقت کی رفتار بتاتی ہے کہ لوگوں نے اپنی طرف سے بہت سے اضافے کر لئے ہیں جو کسی حال میں درست نہیں اور خواہ مخواہ کی موشگافیاں کبھی امت کے لئے نفع مند نہیں ہوسکتیں۔ حالت اعتکاف میں مزید پابندیوں کی اطلاع : 321: اعتکاف کی حالت ایک خاص حالت ہے جس میں کچھ مزید پابندیوں کی اطلاع دی جا رہی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہوئی کہ معتکف کا مسجد میں رہنا ضروری ہے اور مخصوص حوائج و ضروریات کے علاوہ مسجد سے باہر نکلنا مناسب نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ معتکف کے لئے روزہ ضروری ہوا۔ روزہ گیا تو اعتکاف بھی گیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب معتکف ہو توازدواجی تعلقات کی ان دونوں میں ممانعت ہوگئی۔ اعتکاف ” عکوف “ سے ہے جس کے معنی : الاقبال علی الشیٔ وملازمۃ علی سبیل التعظم لہٗ ، یعنی کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا یا جھکنا اور اس کے ساتھ لگ جانا یا اس پر ٹھہر جانا اور اعتکاف اصلاح شریعت میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسجد کے اندر ٹھہرنے کا نام ہے اور یہ بھی احادیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری رمضان المبارک میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ عورتوں کا اعتکاف رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں آپ ﷺ کی ازواج مطہرات (علیہ السلام) کا اعتکاف مسجد میں ثابت ہے علاوہ مسجد کے عورتوں کے گھر میں اعتکاف بیٹھنے کی کوئی روایت کتب احادیث میں کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات (علیہ السلام) کا اعتکاف مسجد میں ثابت ہے۔ تاہم فقہاء اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے اور اس کا حل یہ نکالا ہے کہ گھر ہی کے کسی گوشہ میں ہونا چاہئے جسے نماز و عبادت کے لئے مخصوص کرلیا جائے جس کی تفصیل کتب فقہ میں ملے گی مثلاً : ہدایہ ، شرح و قایہ اور درمختار وغیرہ۔ حدود اللہ کے قریب جانا مناسب نہیں : 322: یہ نہیں فرمایا کہ ان حدود سے تجاوز نہ کرنا بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ جانا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے عین اسی مقام پر یعنی اس کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لئے خطرہ سے خالی نہیں ہوگا۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہ مضمون ایک حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : (لکل ملک حمی وان حمی اللہ محارمہ فمن وقع حول الحمی یوشک ان یقع فیہ) ” حمی “ عربی زبان میں اس چراگاہ کو کہتے ہیں جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لئے ممنوع کردیتا ہے ۔ اس استعارے کا استعمال کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ہر بادشاہ کی ایک حمی ہوتی ہے اور اللہ کی حمی اس کی وہ حدود ہیں جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حمی کے قریب ہی چرتا ہے ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حمی کے اندر داخل ہوجائے۔ “ افسوس ہے کہ جو لوگ ناواقف ہیں وہ ہمیشہ اجازت کی آخری حدود تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علماء و مشائخ بھی اسی غرض کے لئے یہ سندیں ڈھونڈکر جواز کی آخری حدیں انہیں بتایا کرتے ہیں کہ وہ اس باریک امتیاز ہی پر گھومتے رہیں جہاں طاعت و مصعیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں جو کسی حال میں بھی درست نہیں ہے۔ چاہئے کہ وہ ” فَلَا تَقْرَبُوْهَا 1ؕ“ کے الفاظ کو ہر وقت نگاہ میں رکھیں اور اپنا رویہ خود ہی بدل دیں جو ایک خوبی کی بات ہے۔
Top