Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جوان سے کہا کہ میں برابر چلتا رہوں گا یہاں تک کہ میں مجمع البحرین کو پہنچ جاؤں یا یوں ہی زمانہ دراز تک چلتا رہوں
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا مفصل واقعہ مذکورہ بالا آیات میں اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ( علیہ السلام) کی ملاقات کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں ذرا تفصیل سے مذکور ہے امام بخاری (رح) نے کتاب العلم میں دو جگہ لکھا ہے پہلی جگہ صفحہ 17 ج 1 پر مختصر اور پھر صفحہ 23 ج 1 پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے پھر کتاب التفسیر (ج 2 تا ص 676۔ 690) میں سورة کہف کی تفسیر میں مفصل روایت کی ہے نیز اور بھی کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ صحیح مسلم میں صفحہ 269 ج 2 میں مذکور ہے امام نسائی نے سنن کبریٰ میں ج 6 ص 386 تا صفحہ 390 میں ذکر کیا ہے، امام ترمذی بھی اس واقعہ کو ابواب التفسیر ( سورة کہف) میں لائے ہیں یہ واقعہ بہت سی حکمتوں، عبرتوں اور بہت سے علوم پر مشتمل ہے۔ ہم صحیح بخاری کتاب التفسیر سے واقعہ نقل کرتے ہیں اس سے واقعہ کی تفصیل بھی معلوم ہوگی اور آیات کی تفسیر بھی حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے اور ان کو وعظ فرمایا اس وعظ کی جہ سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں نرمی پیدا ہوگی جب وعظ فرما کر واپس چل دئیے تو ایک شخص نے دریافت کرلیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا زمین میں کوئی ایسا شخص ہے جو علم میں آپ سے زیادہ ہو موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ کوئی نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ انہوں نے فرما دیا کہ میں ہوں ! اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ اعلم نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ بلاشبہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میں آپ کے اس بندہ سے کس طرح ملاقات کروں میں اسے جانتا نہیں ہوں میں اس کی تلاش میں نکلوں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں آپ کے اس بندہ تک پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی لے لو اور اسے ٹوکری میں رکھ لو یہ مچھلی مردہ ہو، پھر جس جگہ اس میں جان ڈال دی جائے سمجھ لو کہ وہ صاحب اس جگہ ملیں گے جن سے تم ملنا چاہتے ہو، یہ مچھلی زندہ ہو کر تم سے جدا ہوجائے گی۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لی اور ٹوکری میں رکھ لی اور اپنے ایک نوجوان خادم کو ساتھ لیا جس کا نام یوشع بن نون تھا اور اپنے خادم سے فرمایا کہ بس تمہارے ذمہ اتنا کام کرتا ہوں کہ جہاں یہ مچھلی جدا ہوجائے اس وقت ہمیں بتادینا۔ یوشع نے کہا کہ یہ تو آپ نے کوئی بڑی بات کی ذمہ داری نہیں سونپی (میں انشاء اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے فرمان کے مطابق عمل کروں گا۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم حضرت یوشع بن نون دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے دن کا جو حصہ باقی تھا وہ بھی سفر میں گزرا اور رات بھی، راستہ میں ایک جگہ ایک پتھر آیا اسی پر سر رکھ کر سو گئے تھے اسی اثناء میں مچھلی تڑپ کر ٹوکری سے نکلی اور اس نے سمندر میں اپنی راہ بنالی۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے پانی ہی میں ایک طاقچہ بنا دیا اور اس مچھلی کو اس جگہ ٹھہرا دیا اس منظر کو حضرت یوشع نے دیکھا تو تھا مگر موسیٰ (علیہ السلام) کو بتانا بھول گئے۔ جب اس جگہ کو چھوڑ کر آگے چلے اور اگلے دن کی صبح ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمارا صبح کا کھانا تو لاؤ اس سفر میں ہمیں بڑی تکلیف پہنچی ہے، موسیٰ (علیہ السلام) برابر چلے جا رہے تھے جب اس جگہ سے آگے بڑھ گئے جہاں تک پہنچنا تھا یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) کے ملنے کی جگہ تھی تو خوب زیادہ تھکن محسوس کی اس وقت اپنے خادم سے کھانا طلب کیا خادم نے جواب دیا کہ آپ کو علم نہیں جب ہم نے پتھر کے پاس ٹھکانہ پکڑا تھا اس وقت مچھلی سمندر میں چلی گئی تھی جب ہم وہاں سے چلنے لگے تو مجھے یہ یاد نہ رہا کہ آپ کو بتادوں ایک روایت میں ہے کہ جب مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی تو حضرت یوشع نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قصہ اس لیے نہیں بتایا کہ وہ اس وقت سوئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ میں بیدار نہیں کرتا خود ہی جاگ جائیں گے تو بتادوں گا۔ جب روانہ ہونے لگے تو بتانا بھول گئے۔ یہ بھول شیطان ہی کے بھلانے سے ہوئی کوئی بھولنے والی بات نہیں تھی بلکہ یاد رکھنے اور یاد رہنے کی بات تھی۔ مچھلی جو سمندر میں گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم کو اس سے بڑا تعجب ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم چلے تھے مچھلی کا ہم سے جدا ہوجانا اس بات کی نشانی تھی کہ ہم جن صاحب کی تلاش میں نکلے ہیں وہ وہیں ہیں۔ اب کیا ہوسکتا ہے اب تو واپس ہی ہونا پڑے گا لہٰذا پچھلے پاؤں لوٹے اور یہ دیکھتے رہے کہ کدھر سے آئے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کرنا اور یہ درخواست کرنا کہ مجھے اپنے ساتھ لے لیں جب واپس ہو کر اسی پتھر کے پاس پہنچے جس پر سر رکھ کر سو گئے تھے تو وہاں ایک صاحب کو دیکھا کہ سمندر کے درمیان پانی پر کپڑے اوڑھے ہوئے لیٹے ہیں (یہ صاحب حضرت خضر (علیہ السلام) تھے) موسیٰ نے انہیں سلام کیا انہوں نے منہ کھولا اور فرمایا کہ اس سرزمین میں سلام کہاں سے آگیا۔ آپ کون ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں موسیٰ ہوں انہوں نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں وہی ہوں انہوں نے سوال کیا کیسے تشریف لانا ہوا ؟ فرمایا تاکہ آپ مجھے اپنے اس علم میں سے سکھا دیں جو آپ کو علم مفید سکھایا گیا ہے، انہوں نے جواب میں کہا کیا تمہیں تورات کافی نہیں ہے جو تمہارے ہاتھوں میں ہے اور یہ جو وحی تمہارے پاس آتی ہے کیا یہ کافی نہیں ؟ (مزید فرمایا) کہ اے موسیٰ مجھے اللہ نے وہ علم دیا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور آپ کو اللہ نے وہ علم دیا ہے جسے میں نہیں جانتا۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک چڑیا آئی جس نے سمندر سے اپنی چونچ میں کچھ پانی لے لیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے موسیٰ اللہ کے علم کے سامنے تمہارا علم اور میرا علم اتنا بھی نہیں ہے جتنا اس پرندہ نے سمندر سے اپنی چونچ میں پانی بھر لیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا فرمانا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خاموش رہنے کا وعدہ کرکے ان کے ساتھ روانہ ہوجانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جوان سے درخواست کی تھی کہ مجھے علم سکھا دیں اس پر انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ رہ کر آپ صبر نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کی کوئی نافرمانی نہیں کروں گا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ کرلیا تو دونوں ساتھ ساتھ سمندر کے کنارے کنارے چل دئیے۔ حتیٰ کہ ایک کشتی پر پہنچے وہ کشتی سواریوں کو اس کنارہ سے دوسرے کنارہ تک پہنچایا کرتی تھی دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلیں، ان لوگوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور جان پہچان کی وجہ سے مفت میں بٹھا لیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا کشتی سے ایک تختہ نکال دینا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معترض ہونا حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک کلہاڑا لیا اور کشتی کے ایک تختہ کو اکھاڑ دیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نہ رہا گیا اور فرمایا کہ ایک تو ان لوگوں نے ہمیں بغیر اجرت کے سوار کرلیا اور اوپر سے آپ نے یہ کیا کہ ان کی کشتی میں شگاف کردیا اب اس شگاف سے پانی بھرے گا تو کشتی ڈوبے گی کشتی کے ساتھ وہ سب لوگ بھی ڈوبیں گے جو کشتی میں سوار ہیں تمہارا ڈھنگ تو ایسا ہے کہ ان لوگوں کو ڈبو دو ۔ (لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا) جو فرمایا اس میں حضرت خضر (علیہ السلام) کی نیت پر حملہ کرنا مقصود نہیں تھا اس میں جو لام ہے یہ لام عاقبت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایسا کام کیا جو ہلاکت خیزی کے اعتبار سے بڑا بھاری کام ہے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میرے ساتھ رہتے ہوئے آپ صبر نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ میں بھول گیا آپ بھولنے پر میرا مواخذہ نہ فرمائیے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ برتیے۔ ایک لڑکے کے قتل پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اعتراض کرنا اس کے بعد (کشتی سے اتر کر) آگے بڑھے دونوں ساتھ ساتھ جا رہے تھے کہ چند لڑکوں پر گزر ہوا جو کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان میں سے ایک لڑکے کو پکڑا اور اس کے سر کو مروڑ کر تن سے جدا کردیا (اور ایک روایت میں ہے کہ اسے چھری سے ذبح کردیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پھر نہ رہا گیا اور فرمایا کیا تم نے ایک پاکیزہ جان کو قتل کردیا جس نے کسی کو قتل نہیں کیا کہ جان کا بدلہ جان ہوتا ہے۔ (یہ لڑکا نہ سن بلوغ کو پہنچا ہے جس کا کوئی عمل گناہوں میں شمار کیا جائے اور نہ ہی اس نے کسی کو قتل کیا ہے اس کو قتل کرنا تو بالکل بیجا ہے) آپ نے یہ تو بڑا ہی منکر کام کیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہتے ہوئے صبر نہیں کرسکو گے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھ لیا کہ میرا اور ان کا جوڑ نہیں بیٹھ سکتا۔ لہٰذا اب انہیں اختیار دے دینا چاہیے۔ لہٰذا حضرت خضر (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے۔ آپ مجھے جدا کردیں گے تو میرے لیے ناگواری کی کوئی بات نہ ہوگی کیونکہ آپ ایسے مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ آپ میرے بارے میں معذور ہیں اور آپ کا یہ معذور ہونا میری طرف سے ہے (نہ میں درمیان میں بولتا نہ اس کی نوبت آتی۔ ) ایک گرتی ہوئی دیوار کے کھڑے کردینے پر اعتراض پھر آپس میں جدائی اس کے بعد پھر چلے اور چلتے چلتے ایک بستی میں آئے۔ کھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی بھوک لگی ہوئی تھی۔ بستی والوں سے کھانے کے لیے کچھ طلب کیا ان لوگوں نے مہمان کرنے سے انکار کردیا (مہمانی تو کیا کرتے طلب کرنے سے بھی نہ دیا) ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہاں ایک دیوار کو دیکھا جو جھکی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ گرپڑے حضرت خضر (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر اسے اپنے ہاتھ سے سیدھی کھڑی کردی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نہ ہمیں کچھ کھلایا نہ ہماری مہمانی کی آپ نے ان کا کام مفت میں کردیا اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اپنے اس عمل کی کچھ مزدوری لے لیتے تاکہ ہمارے کھانے کا کام چل جاتا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی (کا وقت) ہے۔ ہاں اتنی بات ضروری ہے کہ جن باتوں پر تم نے صبر نہیں کیا تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ ہم نے صحیح بخاری صفحہ 223 ج 1 اور صفحہ 687 تا 690 ج 2 (کتاب التفسیر) سے نقل کیا ہے اور ایک روایت کی کمی دوسری روایت سے پوری کردی ہے۔ (روایات میں کچھ کمی بیشی ہے) فتح الباری صفحہ 420 ج 8 میں ثعلبی سے نقل کیا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا آپ مجھے کشتی کے پھاڑنے اور غلام کے قتل کرنے اور دیوار قائم کرنے پر ملامت کرتے ہیں اور اپنا حال بھول گئے آپ کو سمندر میں ڈال دیا گیا اور آپ نے ایک قبطی کو قتل کیا اور آپ نے شعیب (علیہ السلام) کی دو بیٹیوں کی بکریوں کو ثواب کے لیے پانی پلایا۔
Top