Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر تم اسی جگہ واپس آؤ جہاں سے دوسرے لوگ واپس آئیں، اور اللہ سے مغفرت طلب کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفور ہے، رحیم ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ قریش اور وہ لوگ جو ان کے دین پر تھے (بنو عامر، بنو ثقیف، بنو خزاعہ) یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں حج کرتے تھے تو عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ یہ لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہر جاتے تھے اور وہیں سے واپس ہوجاتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ عرفات میں پہنچیں، اور وہاں وقوف کریں پھر وہاں سے واپس آئیں۔ (ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ ) میں یہی حکم مذکور ہے۔ (صحیح بخاری ص 648 ج 1) تفسیر معالم التنزیل ص 175 ج 1 میں ہے کہ قریش اور ان کے حلفاء اور جو ان کے دین پر تھے مزدلفہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ ہم اللہ والے اور اس حرم کے رہنے والے ہیں۔ لہٰذا ہم حرم کو پیچھے نہ چھوڑیں گے اور حرم سے نہ نکلیں گے۔ وہ اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھتے تھے کہ تمام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہریں۔ جب دوسرے قبائل عرفات میں وقوف کرکے واپس آتے تھے تو قریش اور ان کے حلفاء مزدلفہ سے ان سب لوگوں کے ساتھ واپس آجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ عرفات میں وقوف کریں پھر وہاں سے سب لوگوں کے ساتھ مزدلفہ میں آئیں۔ حضور اقدس ﷺ بھی قریشی تھے اس لیے حجتہ الوداع کے موقع پر قریش کو اس میں شک نہ تھا کہ آپ ہماری طرح مزدلفہ ہی میں ٹھہر جائیں گے لیکن رسول اللہ ﷺ مزدلفہ کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات پہنچ گئے۔ (کمافی صحیح مسلم ص 397 ج 1) آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کیا اور سب صحابہ بھی آپ کے ساتھ عرفات پہنچے اور پھر وہاں سے آفتاب غروب ہونے پر واپس ہوئے۔ لفظ ثم جو اس آیت میں وارد ہوا ہے اس کی وجہ سے بعض اہل تفسیر نے یوں کہا ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں مزدلفہ سے منیٰ کو واپس ہونے کا ذکر ہے۔ کیونکہ عرفات سے واپس ہونے کا ذکر گزشتہ آیت میں ہوچکا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ثم واؤ کے معنی میں ہے۔ صاحب معالم التنزیل نے یہ تینوں قول لکھے ہیں بظاہر یہ تیسرا قول زیادہ مناسب ہے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ثم ترتیب ذکری کے لیے ہے ترتیب عمل کے لیے نہیں ہے۔ (قال ابن کثیر ص 242 ج 1) ثم ھھنا لعطف خبر علی خبر و ترتیبہ علیہ کانہ تعالیٰ امر الواقف بعرفات ان یدفع الی المزدلفۃ لیذکر اللّٰہ تعالیٰ عند المشعر الحرام و امرہ ان یکون وقوفہ مع جمھور الناس بعرفات الخ۔
Top