Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بہتری عطا فرمائیے، اور آخرت میں بہتری عنایت کیجیے اور ہم کو دوزخ کی آگ سے بچائیے۔
ان لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے آخرت میں ذرا سا بھی حصہ نہیں ہے پھر اہل ایمان کی دعا کا تذکرہ فرمایا کہ وہ یوں دعا کرتے ہیں کہ اے رب ہم کو دنیا میں بھی بہتر عطا فرما اور آخرت میں بھی بہتر عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا، اہل ایمان دونوں جہاں کی کامیابی، خوشحالی اور خوبی و بہتری کے لیے دعا کرتے ہیں۔ لفظ حَسَنَۃٌ حَسَنٌ کی تانیث ہے جو ہر خوبی اور ہر بہتری کو شامل ہے مذکورہ دعا میں دنیا کی ہر خوبی اور آخرت کی ہر خوبی اور بہتری کا سوال ہے اور اس میں بڑی جامعیت ہے۔ صحیح بخاری ص 945 ج 2 میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَاب النَّارِ ) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کی عیادت کی جن کی آواز بہت ہی کمزور ہوگئی تھی اور وہ چوزہ کی طرح دبلے ہوگئے تھے، آپ نے فرمایا کیا تم اللہ سے کوئی دعا کرتے رہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں میں یہ دعا کرتا تھا کہ یا اللہ مجھے جو کچھ سزا آخرت میں دینی ہو وہ دنیا ہی میں دے دیجیے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ سبحان اللہ ! تم میں اس کی طاقت نہیں ہے تم نے دعا میں یوں کیوں نہ کہا۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَاب النَّارِ ) راوی حدیث حضرت انس فرماتے ہیں کہ ان صاحب نے اس کے بعد یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا عطاء فرما دی۔ (صحیح مسلم ص 343 ج 2) سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکن یمانی اور حجرا سود کے درمیان طواف کرتے ہوئے ربنا اتنا فی الدنیا (آخر تک) پڑھتے تھے۔
Top