Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے جس کی گفتگو آپ کو دنیاوی زندگی میں پسند آتی ہے اور وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے اس بات پر جو اس کے دل میں ہے۔ حالانکہ وہ سخت ترین جھگڑالو ہے۔
میٹھی باتیں کرنیوالے منافقوں اور مفسدوں کا تذکرہ معالم التنزیل ص 179 ج 1 میں لکھا ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی یہ شخص میٹھی باتیں کرنے والا تھا۔ دیکھنے میں بھی اچھا لگتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتا تھا اور پاس بیٹھ کر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور اس پر قسمیں کھاتا تھا اور اندر سے منافق تھا۔ رسول اللہ ﷺ (اس کی ظاہری باتوں کی وجہ سے) اسے قریب بٹھاتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اخنس بن شریق کی حرکت : لباب النقول میں بحوالہ ابن جریر مفسر سدی سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی، وہ آپ کی خدمت میں آیا اور اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ آپ کو اس کی باتیں پسند آئیں پھر وہ آپ کے پاس سے چلا گیا اور مسلمانوں کی کھیتیوں پر گزرا جہاں گدھے بھی (چر رہے) تھے اس نے کھیتیوں کو آگ لگا دی اور گدھوں کے پاؤں کاٹ کر چلا گیا۔ اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ (یُھْلِکَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ ) میں اسی کو بیان فرمایا۔ علامہ مناوی نے فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ص 145 ج 2 میں بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا اللّٰھم انی أعوذبک من خلیل ماکر (الحدیث) میں یہ اخنس بن شریق مراد ہے جو میٹھی زبان والا تھا، جب آنحضرت ﷺ سے باتیں تھا تو نرم نرم باتیں کرتا تھا اور یوں کہتا تھا کہ اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں۔ لباب النقول میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک یہ بات نقل کی ہے کہ جس جماعت میں حضرت عاصم اور حضرت مرثد تھے اس جماعت کے شہید ہونے کا جب علم ہوا تو دو منافقوں نے یہ کہا کہ افسوس ہے ان لوگوں پر جو فتنے میں پڑگئے اور ہلاک ہوگئے۔ نہ تو اپنے گھروں میں ہی بیٹھے اور نہ تبلیغی ذمہ داری کو پورا کرسکے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ بہر حال آیت کا سبب نزول جو بھی ہو الفاظ کا عموم ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو دنیاوی زندگی میں میٹھی میٹھی اور چکنی چپڑی باتیں کرکے مسلمانوں کے عوام اور خواص میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتے ہیں اندر سے منافق ہوتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کے جھوٹے دعوے ثابت کرنے کے لیے بار بار قسم کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ گواہ ہے ہم سچے مسلمان ہیں، ان لوگوں کا مقصد چونکہ اول سے آخر تک دنیا اور دنیا کا جاہ و مال ہی ہوتا ہے اور اندر سے مسلمان نہیں ہوتے اس لیے جب بھی کوئی موقعہ دیکھتے ہیں مسلمانوں کو زک دینے اور نقصان پہنچانے اور ان کی حکومتوں کے خلاف منصوبے بنانے میں اور ان کی حکومتوں کو برباد کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا کر نہیں رکھتے۔ جو کام اخنس بن شریق نے کیا کہ خدمت عالی میں حاضرہو کر مسلمان ہونے کا دعوی کیا اور اللہ کو اپنے دعوے کی سچائی پر گواہ بنایا اور پھر وہاں سے نکل کر مسلمانوں کی کھیتیوں کو آگ لگا دی اور مویشیوں کو کاٹ کر پھینک دیا وہی کام ہمیشہ سے منافقین کرتے آئے ہیں اور اب بھی کرتے رہتے ہیں۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ قتادہ اور مجاہد اور علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت ہر ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو کفر چھپائے ہوئے ہو، نفاق اور جھوٹ کو اپنائے ہوئے اپنی زبان سے اپنے دل کے خلاف ظاہر کرتا ہو۔ نیز علامہ قرطبی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ دینی اور دنیاوی امور میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ص 10 ج 3) لفظ (فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) کے بارے میں مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ امور دنیا اور اسباب معاش میں آپ کو اس کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ دنیاوی مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ ایسی باتیں کرتا ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ دنیاوی باتوں میں اس کی حلاوت اور فصاحت آپ کو پسند آتی ہے لیکن آخرت میں اس کی کوئی بات قابل التفات نہیں ہوگی۔ وہاں جو اس کو وحشت سوار ہوئی اس کی وجہ سے وہ بولنے بھی نہ پائے گا۔ (ص 109 ج 1) جھگڑالو اور چرب زبان کی مذمت : (اَلَدُّ الْخِصَامِ ) یہ دونوں کلمے آپس میں مضاف مضاف الیہ ہیں۔ پہلا لفظ لدد سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے بہت زیادہ جھگڑالو اور خصام بھی جھگڑے کو کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ جھگڑالو ہے۔ مفسر بیضاوی نے اس کا ترجمہ شدید العدا وہ (سخت دشمنی والا) کیا ہے جو اس کا لازمی معنی ہے۔ منافقوں کی یہ صفت بیان فرمانے سے ہر جھگڑالو کی مذمت معلوم ہوئی جو باطل کے لیے جھگڑتا ہو۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض وہ ہے جو زیادہ جھگڑالو ہو۔ (صحیح بخاری ص 649 ج 2، ص 1066 ج 2) میٹھی میٹھی باتیں کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا اور دل میں جو کچھ ہے اس کے خلاف ظاہر کرنا آج کی دنیا میں اس کو بڑی ہوشیاری سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ چیز سیاست حاضرہ کا جزو بن چکی ہے، سنن تر مذی ابواب الزہد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آخر زمانہ میں ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ذریعہ دنیا حاصل کریں گے اور تواضع ظاہر کرنے کے لیے بھیڑوں کی کھالوں کے کپڑے پہنیں گے ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی۔ اور ان کے دل بھیڑیوں کی طرح ہوں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا یہ لوگ میرے حلم سے دھوکہ کھاتے ہیں یا مجھ پر جرأت کرتے ہیں میں اپنی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان لوگوں پر ان ہی میں سے ایسا فتنہ بھیجوں گا کہ جو ان میں ہوشمند عقل والا ہوگا اسے (بھی) حیران کر دے گا۔
Top