Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے جو خرید لیتا ہے اپنے نفس کو اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے
اللہ کی رضا کے لیے جان و مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت حلیتہ الاولیاء ص 101 ج 1 میں حضرت سعید بن المسیب سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت صہیب رومی ؓ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کی نیت سے (مکہ معظمہ سے) نکلے تو قریش کے چند افراد ان کے پیچھے لگ گئے تاکہ ان کو واپس کریں۔ حضرت صہیب رومی ؓ اپنی سواری سے اترے اور اپنے ترکش سے تیر نکالے اور ان سے کہا کہ اے قریش کے لوگو ! تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سے بڑھ کر تیر انداز ہوں اور خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں اپنے سارے تیر تمہاری طرف نہ پھینک دوں جو میرے ترکش میں بھرے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد میں اپنی تلوار سے لڑوں گا جب تک میرے ہاتھ میں سکت رہے گی۔ اب تم جو چاہو کرلو، اور ایک صورت یہ ہے کہ میرا مال اور میرے کپڑے جہاں مکہ میں رکھے ہیں میں تمہیں ان کا پتہ بتادیتا ہوں تم ان کو لے لو اور میرا راستہ چھوڑ دو ، وہ کہنے لگے ہاں یہ ٹھیک ہے ہم اس پر راضی ہیں وہ لوگ تو ادھر چلے گئے اور حضرت صہیب ؓ سفر قطع کر کے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا ربح البیع ابا یحی ربح البیع ابا یحییٰ (اے ابو یحییٰ یہ بیع نفع والی ہے، اے ابو یحییٰ یہ بیع نفع والی ہے (جس کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑی سی دنیا خرچ کرکے جو اپنی جان اور دین کو بچا لے یہ نفع کا سودا ہے۔ (ابو یحییٰ حضرت صہیب کی کنیت ہے) ان کے پہنچنے سے پہلے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کو واقعہ کی خبر دیدی تھی۔ مستدرک حاکم ص 398 ج 3 میں بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یہ قصہ مذکور ہے اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آیت شریفہ (وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَات اللّٰہِ ) حضرت صہیب ؓ کے مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے ہی نازل ہوگئی تھی۔ جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابو یحییٰ نفع کا سودا ہوا اور آپ نے انہیں آیت بالا پڑھ کر سنائی۔ تفسیر ابن کثیر ص 247 ج 1 میں ہے کہ حضرت صہیب ؓ نے بیان فرمایا کہ جب میں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو قریش نے کہا کہ اے صہیب ؓ تم یہاں آئے تھے تو تمہارے پاس کچھ بھی مال نہ تھا اور اب تم یہاں کا کمایا ہوا مال اپنے ساتھ لے جا رہے ہو۔ اللہ کی قسم ایسا نہ ہوگا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم مناسب جانو تو میں تمہیں اپنا مال دیدوں اور تم مجھے چھوڑ دو ۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور میں ان کو اپنا مال دے دیا اور مدینہ منورہ پہنچ گیا۔ نبی اکرم ﷺ کو واقعہ کی خبر مل چکی تھی آپ ﷺ نے فرمایا (رَبِحَ صُھَیْبٌ رَبِحَ صُھَیْبٌ) (صہیب نے نفع کا سودا کیا۔ صہیب نے نفع کا سودا کیا) بعض مفسرین نے یشری کا ترجمہ یبیع سے کیا ہے یعنی بعض آدمی ایسے ہیں کہ اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں۔ مفسر ابن کثیر ص 247 ج 1 میں لکھتے ہیں کہ اکثر حضرات نے آیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ہر ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے، قرآن کی آیت (اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ) (الایۃ) سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا۔ اس اعتبار سے مجاہدین اپنے جان و مال کو فروخت کرنے والے ہوگئے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں ص 22 ج 2 ...... کہ حضرت صہیب کے قصے میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ وہ مشرکین مکہ سے قتال کے لیے تیار ہوگئے اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے نفس کو بیچ دیا، اس اعتبار سے ان کے قصہ کو سامنے رکھ کر بھی یشری کا ترجمہ یبیع (بیچتا ہے) کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت آیت کا جو شان نزول ہے (یعنی حضرت صہیب ؓ کا واقعہ) اس کو سامنے رکھتے ہوئے بھی آیت کا عموم ہر اس شخص کو شامل ہے جو بھی اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال خرچ کرے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان پر کھیل جائے، معالم التنزیل ص 183 ج 2 میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس کا مصداق ایسے شخص کو بتایا جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے قتل کردیا جائے۔
Top