Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، سو تم اپنی کھیتی میں آجاؤ جس طرف سے ہو کر چاہو اور تم اپنی جانوں کے لیے آگے بھیج دو ، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ بلاشبہ تم اس سے ملاقات کرنے والے ہو، اور مومنین کو خوشخبری سنا دو ۔
وطی فی الدبر کی حرمت اور یہود کی ایک بات کی تردید صحیح بخاری ص 649 ج 2 میں ہے کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ یہودی یوں کہتے تھے کہ جو کوئی مرد عورت کی سامنے کی شرم گاہ میں پیچھے کی جانب سے جماع کرے تو بچہ بھینگا پیدا ہوگا۔ ان کے اس خیال کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں لہٰذا تم اپنی کھیتی میں آجاؤ جیسے چاہو۔ اس میں اول تو عورتوں کو کھیتی فرمایا اور مرد عورت کے میل ملاپ کی ضرورت اور فائدہ کو واضح طور پر بیان فرمایا کہ اس کی ضرورت اور مشروعیت اولاد طلب کرنے کے لیے ہے جیسا کہ سورة بقرہ ( کے رکوع 22) میں (وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ) فرمایا ہے، نکاح کرنے میں جہاں نفس و نظر کی حفاظت ہے، وہاں طلب ولد بھی مطلوب ہے۔ حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت رکھنے والی ہو اور اس سے اولاد زیادہ پیدا ہونے والی ہو ( جس کا اندازہ خاندانی عورتوں کے احوال سے ہوجاتا ہے) کیونکہ میں (قیامت کے دن) تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔ (سنن ابو داؤد ص 280 ج 1) اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اولاد کی پیدائش پر کوئی پابندی لگانا یا اولاد کی کثرت کے خلاف منصوبے بنانا شریعت اسلامیہ کے مقصد اور مزاج کے خلاف ہے۔ پھر یہ فرمایا کہ تم اپنی کھیتیوں میں آجاؤ جس طرح ہو کر چاہو آجاؤ اس میں یہ بتادیا کہ عورت کے پاس مرد کے آنے کا راستہ صرف ایک ہی ہے، یعنی وہ راستہ جسے اختیار کرنے سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کی بھی ممانعت فرمائی کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے پیچھے کے راستہ سے شہوت پوری کرے۔ کیونکہ وہ راستہ کھیتی کا نہیں ہے بلکہ اس کی گندگی حیض والی گندگی سے زیادہ ہے۔ پہلے تو فرمایا : (فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ) پھر فرمایا : (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ) پھر فرمایا : (فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِءْتُمْ ) اس میں ایک ہی سیاق میں تین اسلوب اختیار فرما کر عورت کے پیچھے والے راستہ سے شہوت پوری کرنے کی ممانعت فرما دی بعض اکابر نے فرمایا کہ غالباً صریح الفاظ میں اس کا ذکر نہ فرمانا اس لیے ہے کہ صراحتہً ایسے خبیث و بد ترین فعل کا تذکرہ بصورت نفی یا بصورت نہی بھی گوارا نہیں فرمایا گیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس شخص نے کسی حیض والی عورت سے شہوت پوری کی یا کسی عورت کے پیچھے والے راستہ میں شہوت والا کام کیا، یا کسی ایسے شخص کے پاس آیا جو غیب کی خبریں بتاتا ہو تو وہ اس دین کا منکر ہوگیا جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ المصابیح ص 56) تفسیر درمنثور ص 264 ج 1 میں بحوالہ ابو داؤد والنسائی رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کسی مرد یا کسی عورت کے پیچھے والے راستہ میں شہوت کا کام کیا وہ ملعون ہے اور حضرت ابو الدرداء ؓ سے سوال کیا گیا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے پیچھے والے راستہ میں شہوت کا کام کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا ایسا کام کافر ہی کرسکتا ہے (در منثور) معلوم ہوا اغلام کرنا بیوی کے ساتھ بھی حرام ہے اور اہل کفر کا طریقہ ہے۔ أعاذ اللّٰہ منہ کل مؤمن۔ یہ جو فرمایا : (فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِءْتُمْ ) (کہ تم اپنی کھیتی میں آؤ جیسا چاہو) اس کا مطلب یہ ہے کہ کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے، سامنے سے پیچھے سے اپنی بیویوں سے لذت حاصل کرو، بشرطیکہ کھیتی کی جگہ پر آؤ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر آیت جو (نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ ) (آخر تک) نازل ہوئی ہے۔ اس میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ عورتوں سے جو خاص تعلق ہے اس کے لیے آگے سے آؤ یا پیچھے سے آؤ (دونوں طرح اختیار ہے) اور دبر میں (یعنی پیچھے کے راستے میں) اور حیض کے زمانہ میں جماع کرنے کی ممانعت فرما دی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا جس نے کسی مرد یا عورت کے پیچھے والے راستہ میں شہوت کا کام کیا۔ (رواہ الترمذی) پھر فرمایا : (وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ) (کہ اپنی جانوں کے لیے خیر آگے بھیج دو ، اور اللہ سے ڈرو) ۔۔ اس میں ہر خیر کا حکم آگیا اور ہر شر سے بچنے کی تاکید آگئی۔ (وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) کے عموم میں تمام گناہوں کے چھوڑنے کا حکم فرمایا۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، پھر تقویٰ حاصل کرنے کا طریقہ بتادیا اور فرمایا (وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ) (کہ تم جان لو کہ بیشک تم اللہ سے ملاقات کرنے والے ہو) جو شخص یوم القیامہ کی حاضری، اور خداوند قدوس کی بارگاہ میں پیشی کا یقین رکھے گا اور بار بار اس کا استحضار کرے گا اسے انشاء اللہ تعالیٰ صفت تقویٰ حاصل ہوگی۔ آخر میں فرمایا (وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (کہ مومن بندوں کو کامیابیوں کی اور نعمتوں کی بشارت دے دیجیے)
Top