Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اللہ تعالیٰ تمہارا مؤاخذہ نہیں فرمائے گا تمہاری لغو قسموں کے بارے میں لیکن مؤاخذہ اس بات پر فرمائے گا جس کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا اور اللہ غفور ہے حلیم ہے۔
قسموں کی قسموں کا بیان اور ان کے احکام جو قسم کھائی جائے اس کی تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ گزشتہ کسی فعل پر جھوٹی قسم کھائی جائے، جو کام نہیں کیا تھا اس کے بارے میں قسم کھالے کہ میں نے کیا، یا جو کام کیا تھا اس کے بارے میں قسم کھالی کہ یہ میں نے نہیں کیا۔ اس کو یمین غموس کہا جاتا ہے اس کا بہت بڑا گناہ ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بڑے گناہ یہ ہیں، اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور یمین غموس۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 17) یہ لفظ غمس سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو پوری طرح کسی دوسری چیز میں داخل کردیا جائے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جھوٹی قسم کو یمین غموس اس لیے کہا گیا کہ یہ اولاً گناہ میں پھر دوزخ میں داخل کردیتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آئندہ کسی کام کے بارے میں قسم کھائے، مثلاً یوں کہے کہ اللہ کی قسم یہ کام ضرور کروں گا، یا اللہ کی قسم فلاں کام نہیں کروں گا، اس کو یمین منعقدہ کہا جاتا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ جو سورة مائدہ کے رکوع نمبر 12 میں مذکور ہے کفارہ قسم کی تفصیلات انشاء اللہ تعالیٰ وہیں بیان ہو نگی۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی گزشتہ کام پر قسم کھالی اور یہ سمجھ کر قسم کھالی کہ میں سچ بول رہا ہوں سچی قسم کھا رہا ہوں، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہ تھا جیسا اس نے سمجھا تھا اپنے خیال میں اس نے سچی قسم کھائی لیکن اصل واقعہ اس کے خلاف تھا۔ اس قسم کا نام یمین لغو ہے، اس کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ نہیں فرمائے گا، یمین لغو کی دوسری تفسیر حضرت عائشہ ؓ سے یوں منقول ہے کہ باتوں باتوں میں قسم کی نیت کے بغیر جو زبان سے لاو اللہ اور بلیٰ واللہ نکل جاتا ہے یہ یمین لغو ہے۔ (رواہ البخاری ص 986 ج 2) یمین لغو میں کیونکہ ارادہ نہیں ہوتا اس لیے اس پر مواخذہ نہیں ہے۔ آیت کے ختم پر فرمایا (وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ) کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے جو یمین لغو پر مواخذہ نہیں فرمائے گا۔ اور بردبار بھی ہے سزا دینے میں جلدی نہیں فرماتا۔
Top