Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 26
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ١ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ١ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠   ۧ
اَلْخَبِيْثٰتُ : ناپاک (گندی) عورتیں لِلْخَبِيْثِيْنَ : گندے مردوں کے لیے وَالْخَبِيْثُوْنَ : اور گندے مرد لِلْخَبِيْثٰتِ : گندی عورتوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتُ : اور پاک عورتیں لِلطَّيِّبِيْنَ : پاک مردوں کے لیے وَالطَّيِّبُوْنَ : اور پاک مرد (جمع) لِلطَّيِّبٰتِ : پاک عورتوں کے لیے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ مُبَرَّءُوْنَ : مبرا ہیں مِمَّا : اس سے جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : مغفرت وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت کی
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہیں، یہ لوگ اس سے بری ہیں جو تہمت لگانے والے کہتے ہیں ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے۔
چھٹی آیت میں فرمایا کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہیں، اس میں اول تو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے طبیعتوں میں جوڑ رکھا ہے گندی اور بد کار عورتیں بد کار مردوں کی طرف اور گندے اور بد کار مرد گندی اور بد کار عورتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں اس طرح پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کی طرف اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور اسی طبعی رغبت کی مناسبت کی وجہ سے اچھوں کی اچھا جوڑا مل جاتا ہے اور بروں کو برا جوڑا حاصل ہوتا ہے اس سے معلوم ہوگیا حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو اللہ تعالیٰ نے بیویاں عطا فرمائیں وہ پاکیزہ بیویاں تھیں رسول اللہ ﷺ جو تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کے سردار ہیں ان کی ازواج بھی طاہرات اور مطہرات اور پاکیزہ ہیں جب اللہ تعالیٰ انہیں سردار انبیاء ﷺ کی زوجیت کا شرف عطا فرما دیا تو اب ان کے بارے میں بری بات کا خیال کرنا اور زبان پر لانا رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس پر حملہ کرنے کے مترادف ہوا۔ اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگانے والوں کے بارے میں (جنہوں نے بری بات کو اٹھایا اور آگے بڑھایا اور پھیلایا اور پھر آیت قرآنیہ نازل ہونے پر بھی توبہ نہ کی) (لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ) فرما دیا (اُولٰٓءِکَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ ) (یہ پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتیں ان چیزوں سے بری ہیں جو لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں تہمت لگاتے ہیں) (لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ) (ان کے لیے گناہوں کی مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے) یعنی ان کے لیے جنت ہے جس میں عزت کے ساتھ کھائیں گے۔ (مُبَرَّءُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ ) میں حضرت عائشہ ؓ کی برأت کی تصریح کے ساتھ حضرت صفوان بن معطل ؓ کی برأت کی بھی تصریح آگئی۔ (معالم التنزیل ج 3 ص 335) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے چند چیزوں پر فخر ہے پھر اس کو اس طرح بیان فرماتی تھیں (1) کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے علاوہ کسی باکرہ یعنی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا (2) رسول اللہ ﷺ کی جب وفات ہوئی تو آپ میری گود میں تھے۔ (3) اور آپ میرے گھر میں دفن ہوئے۔ (4) اور آپ کے اوپر (بعض مرتبہ) ایسی حالت میں وحی آتی تھی کہ آپ میرے ساتھ ایک ہی لحاف میں ہوتے تھے۔ (5) اور آسمان سے میری برأت نازل ہوئی۔ (6) میں رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ اور دوست (یار غار) کی بیٹی ہوں۔ (7) اور میں پاکیزہ پیدا کی گئی۔ (8) اور مجھ سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا گیا۔ اور الاصابہ میں بحوالہ طبقات ابن سعد حضرت عائشہ ؓ سے یوں نقل کیا ہے کہ مجھے چند ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو میرے علاوہ کسی اور عورت کو نصیب نہیں ہوئیں۔ (1) میں سات سال کی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا ہے۔ (2) فرشتہ میری صورت آپ کے پاس ایک ریشمی کپڑے میں لے کر آیا تاکہ آپ ﷺ مجھے دیکھ لیں۔ (3) میں نو سال کی تھی جب زفاف ہوا۔ (4) میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا۔ (5) میں بیویوں میں آپ کی سب سے زیادہ محبوب تھی۔ (6) میں نے آپ کی آخری حیات میں آپ کی تیمار داری کی میرے ہی پاس آپ کی وفات ہوئی آپ کی وفات کے وقت میرے اور فرشتوں کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔ (انتھی) (وراجع الدر المنثور ج 5 ص 32) بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے بچہ کو قوت گویائی دی اور اس کے ان کی برأت ظاہر کی اور حضرت مریم (علیہ السلام) پر تہمت لگائی گئی تو ان کے فرزند حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (جبکہ وہ گود ہی میں تھے) ان کی برأت ظاہر کی اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگائی گئی اور ان کی برأت ظاہر فرمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد آیات نازل فرمائیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو جو تہمت لگائی گئی تھی قرآن مجید میں ان کی برأت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تہمت لگانے والوں کو جھوٹا قرار دیا اور جنہوں نے آیت نازل ہونے کے بعد بھی اعتقاد تہمت سے توبہ نہ کی ان کے لیے فرمایا کہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ ان کے لیے عذاب عظیم ہے اور یہ بھی فرمایا ان کی حرکت کا اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اس سب کے باو جود مدعیان اسلام میں جو شیعہ فرقہ ہے وہ یہی کہتا ہے کہ حضرت عائشہ پر جو تہمت لگائی تھی وہ صحیح تھی اور ساتھ ہی یہ لوگ یوں بھی کہتے ہیں کہ جب امام مہدی تشریف لائیں گے تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو قبر سے نکال کر حد لگائیں گے (العیاذ باللہ) یہ لوگ آیت قرآنیہ کے منکر اور مکذب ہونے کی وجہ سے کافر ہیں اور (لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ) کا مصداق ہیں (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفِکُوْنَ ) ۔
Top