Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 29
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تَدْخُلُوْا : تم داخل ہو بُيُوْتًا : ان گھروں میں غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ : جہاں کسی کی سکونت نہیں فِيْهَا : جن میں مَتَاعٌ : کوئی چیز لَّكُمْ : تمہاری وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تُبْدُوْنَ : جو تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہوجاؤ جن میں کوئی رہتا نہیں ان میں تمہارے استعمال کرنے کی کوئی چیز ہو۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔
اس کے بعد فرمایا۔ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْہَا مَتَاعٌ لَکُمْ ) (اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہوجاؤ جن میں کوئی رہتا نہ ہو اس میں تمہارے استعمال کرنے کی کوئی چیز ہو) (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ) (اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو) اس آیت میں ان گھروں میں اجازت طلب کیے بغیر اندر جانے کی اجازت دیدی جن میں عموما سب کو آنے جانے کی اجازت ہوتی ہے اور جو کسی خاص فرد یا خاندان کی رہائش کے لیے مخصوص نہیں ہوتے جیسے رباطین اور مسافر خانے اور مدرسے خانقاہیں ہسپتال ان میں اصول شریعت کے مطابق آنے جانے والوں کو نفع حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے ان میں داخل ہونے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہاں مسجد میں امام کا کمرہ مدرسوں میں طلبہ کے حجرے خانقاہوں میں ذاکرین کے خاص غرفے اداروں کے دفاتر جن میں سب کو آنے کی اجازت نہیں ان میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔ تفسیر جلالین میں (بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے ای منفعتہ لکم باستکنان وغیرہ لبیوت الربط و الحانات المسبلۃ۔ (معالم التنزیل ج 3 ص 337) حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے اھی الحانات و البیوت و المنازل المبنیہ للسابلۃ لیاو وا الیھا ویوو وا امتعتھم الیھا فیجوز دخو لھا بغیر استذان و المنفعۃ فیھا بالنزول و ایواء المتاع و الا تقاء من الحرو البرد اور حضرت عطا نے (بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے مراد ان گھروں سے ٹوٹے پھوٹے گرے پڑے ویران کھنڈر ہیں اور متاع سے قضائے حاجت مراد ہے مطلب یہ کہ ٹوٹے پھوٹے ویران کھنڈر گھروں میں پیشاب پاخانہ کی حاجت پورا کرنے کے لیے جاؤ تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ذکرہ فی معالم التنزیل ایضا) تفسیر درمنثور میں نقل کیا ہے کہ جب آیت کریمہ (یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ ) نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ قریش کے تاجر مکہ مدینہ اور شام اور بیت المقدس کے درمیان سفر کرتے ہیں اور راستوں میں گھر بنے ہوئے ہیں انہیں میں ٹھہر جاتے ہیں ان میں کوئی رہتا ہی نہیں ہے تو کس سے اجازت لیں کس کو سلام کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ ) نازل فرمائی اور مذکورہ گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے کی اجازت دیدی۔ (درمنثور ج 5 ص 40) احادیث شریفہ میں استیذ ان کے احکام و آداب ذیل میں چند احادیث کا ترجمہ لکھا جاتا ہے جن میں کسی کے یہاں اندر جانے کی اجازت لینے کے احکام و آداب مذکور ہیں حضرت عبداللہ بسر ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی خاندان کے دروازہ پر تشریف لاتے (اور اجازت لینے کے لیے کھڑے ہوتے) تو دروازے کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کے دائیں جانب یا بائیں کھڑا ہو کر السلام علیکم فرماتے تھے اس زمانہ میں دروازوں پر پردے نہیں تھے۔ (رواہ ابو داؤد) اس سے معلوم ہوا کہ جب اندر آنے کی اجازت لینے لگے تو اپنی نظر کی حفاظت کرے تاکہ کھلے دروازے کے اندر سے یا کو اڑوں کی شگاف سے اندر نظر نہ جائے، حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ہیں جو کسی کے لیے حلال نہیں ہیں (1) کوئی شخص ایسا نہ کرے کہ کچھ لوگوں کا امام بنے پھر دعا کرنے لگے تو انہیں چھوڑ کر اپنے ہی نفس کو دعاء کے لیے مخصوص کرلے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس نے مقتدیوں کی خیانت کی۔ (2) اور اجازت سے پہلے کسی گھر کے اندر نظر نہ ڈالے اگر ایسا کیا تو اس گھر کے رہنے والوں کی خیانت کی۔ (3) اور کوئی شخص ایسی حالت میں نماز نہ پڑھے جب کہ پیشاب پاخانہ کو روکے ہوئے ہو۔ (رواہ ابو داؤد) حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دروازہ کے سوراخ سے رسول اللہ ﷺ کے گھر میں نظر ڈالی اس وقت آپ کے ہاتھ میں گنگھی کی قسم کی ایک چیز تھی جس سے سر مبارک کو کھجا رہے تھے آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے تو اس گنگھی کرنے کی چیز سے تیری آنکھوں کو زخمی کردیتا، اجازت تو نظر ہی کی وجہ سے رکھی گئی ہے۔ (رواہ البخاری ص 922) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے فان فعل فقد دخل یعنی جس نے اندر نظر ڈال دی تو وہ تو داخل ہی ہوگیا (رواہ ابو داؤد) مطلب یہ ہے کہ دیکھ رہا ہے تو اجازت کیوں لے رہا ہے اجازت اسی لیے رکھی گئی ہے کہ صاحب خانہ اپنے خانگی احوال کو دکھانا نہیں چاہتا۔ جب اجازت سے پہلے دیکھ لیا تو گویا اندر ہی چلا گیا۔ جب اجازت لینے کے لیے کسی کا دروازہ یا گھنٹی بجائے اور اندر سے کوئی سوال کرے کہ کون ہے تو واضح طور پر اپنا نام بتادے اور اہل خانہ نام سے بھی نہ پہنچانتے ہوں تو اپنا صحیح پورا تعارف کرا دے۔ حضرت جابر ؓ نے بیان فرمایا کہ میں اپنے والد کی قرضہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ نے اندر سے فرمایا کون ہے ؟ میں نے جواب میں عرض کردیا انا (یعنی میں ہوں) آپ نے کراہت کے انداز میں فرمایا انا انا (رواہ البخاری ص 923) مطلب یہ ہے کہ میں میں کرنے سے اہل خانہ کیا سمجھیں کہ کون ہے میں تو ہر شخص ہے۔ جس گھر میں کوئی شخص خود اکیلا ہی رہتا ہو اس میں تو اسے کسی استیذان یعنی اجازت لینے کی ضرورت نہیں دروازہ کھولے اندر چلا جائے۔ لیکن جس گھر میں اور لوگ بھی رہتے ہیں اگرچہ اسے محارم ہوں (والدین بہن بھائی وغیرہ) تب بھی اندر جانے کی اجازت لے۔ حضرت عطاء بن یسار (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا کیا میں اپنی والدہ کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤں آپ نے فرمایا اندر جانے کے لیے والدہ سے بھی اجازت لو اس شخص نے کہا میں تو والدہ کے ساتھ گھر میں رہتا ہی ہوں آپ نے فرمایا (اس کے باو جود) اس سے اجازت لے کر اندر جاؤ اس شخص نے کہا کہ میں اپنی والدہ کا خدمت گزار ہوں (جس کی وجہ سے اکثر اندر آنا جانا پڑتا ہے) آپ نے فرمایا بہر صورت اجازت لے کر داخل ہو کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اپنی والدہ کو ننگی دیکھ لے اس نے کہا یہ تو پسند نہیں ہے آپ نے فرمایا بس تو اس کے پاس اجازت لے کر جاؤ۔ (رواہ مالک وھو حدیث مرسل) اگر کسی گھر میں صرف میاں بیوی رہتے ہوں تب بھی مستحب یہ ہے کہ بغیر کسی اطلاع کے اندر نہ جائے داخل ہونے سے پہلے کھانس سے کھنکار سے یا پاؤں کی آہٹ سے باخبر کر دے کہ میں آ رہا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ جب کبھی بھی باہر سے گھر میں آتے تو دروازے سے باہرکھنکار کے پہلے سے اپنے آنے کی اطلاع دے دیتے تھے تاکہ وہ ہمیں ایسی حالت میں نہ دیکھیں جو ان کو ناپسند ہو۔ (ذکرہ ابن کثیر فی تفسیرہ) بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بیوی یہ سمجھ کر کہ میاں کو جلدی آنا نہیں ہے بناؤ سنگار کے بغیر گھر میں رہتی ہے ایسی حالت میں اچانک شوہر کی نظر پڑجائے تو ایک طرح کی وحشت معلوم ہوتی ہے۔ اس قسم کے امور کی وجہ سے اسے بھی مستحب اور مستحسن قرار دیا ہے کہ جس گھر میں صرف بیوی ہو اس میں بھی کسی طرح اپنی آمد کی اطلاع دیکر داخل ہو گو میاں بیوی کا آپس میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ عورتیں بھی عورتوں کے پاس اجازت لے کر جائیں چونکہ معلوم نہیں کہ جس عورت کے پاس جانا ہے وہ کس حال میں ہے عورت کو بھی دوسری عورت کے جسم کے ہر حصہ کو دیکھنا جائز نہیں ہے اگر وہ غسل کر رہی ہو یا کپڑے بدل رہی ہو تو بلا اجازت اس کے گھر میں داخل ہونے کی صورت میں بدن کے اس حصہ پر نظر پڑجانے کا احتمال رہے گا جسے دوسرے عورت کو شرعاً دیکھنا جائز نہیں ہے (اس کی کچھ تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گی) پھر یہ بھی ممکن ہے کہ جس عورت کے پاس جانا ہے وہ کسی ایسے شغل میں ہو جس کی وجہ سے بات کرنے کی فرصت نہ ہو یا اپنی مشغولیت سے کسی عورت کو باخبر کرنا مناسب نہ جانتی ہو۔ تفسیر ابن کثیر میں حضرت ام ایاس سے نقل کیا ہے کہ ہم چار عورتیں تھیں جو اکثر حضرت عائشہ ؓ کے پاس حاضر ہوا کرتی تھیں گھر میں جانے سے پہلے ہم ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کیا کرتی تھی جب اجازت دیتی تھیں تو ہم اندر چلی جاتی تھیں۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اجازت لینے والے کی آواز باہر سے پہنچ سکتی ہے ایسی صورت میں اجازت لینے والے کو السلام علیکم کہ کر اور اپنا نام بتا کر اجازت لینا چاہیے تاکہ اندر سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے کہ تم کون ہو۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت عمر ؓ سے ملنے کے لیے گئے تو باہر سے یوں کہا السلام علیکم ھذا عبداللہ ابن قیس السلام ھذا ابو موسیٰ السلام علیکم ھذا الاشعری۔ (رواہ مسلم ج 2 ص 211) اگر کسی شخص کو بلاکر بھیجا ہو اور جسے بلایا ہو وہ اسی وقت قاصد کے ساتھ آگیا اور قاصد بغیر اجازت اسے اپنے ساتھ اندر لیجانے لگے تو اس صورت میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ فقد روی ابوہریرہ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا دعی احد کم فجاء مع الرسولہ اذن۔ (رواہ ابو داؤد) (وجہ اس کی یہ ہے کہ جو بلانے گیا ہے وہی ساتھ لے کر اندر داخل ہو رہا ہے اسے معلوم ہے کہ اندر بلا اجازت چلے جانے کا موقع ہے) فائدہ (1): بعض متعلقین سے بہت زیادہ بےتکلفی ہوتی ہے اور ایسے دوست کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جاؤں گا تو صاحب خانہ کو تکلیف نہ ہوگی اور یہ موقع عورتوں کے پاس ہونے کا اور کسی راز کی بات کا نہیں ہے۔ ایسا شخص اپنے دوست کی عام اجازت پر (جو خاص طور سے اسے دی گئی ہو) نئی اجازت لیے بغیر بھی داخل ہوسکتا ہے۔ اس کو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے یوں ی بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے لیے میرے پاس آنے کی بس یہی اجازت ہے کہ تمہیں میری آہستہ کی آواز سن کر یہ پتہ چل جائے کہ میں اندر موجود ہوں تم پردہ اٹھاؤ اور تم اندر آجاؤ۔ ہاں اگر میں منع کروں تو اور بات ہے۔ (رواہ مسلم) فائدہ (2): اجازت دینے کے لیے زبان ہی سے اجازت دینا ضروری نہیں اگر اجازت دینے کے لیے آپس میں کوئی اصطلاح مقرر کر رکھی ہو اس کے مطابق عمل کرلیا جائے تو وہ بھی اجازت میں شمار ہوگا۔ حضرت علی ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں میرا ایک بار دن کو ایک بار رات کو جانا ہوتا تھا جب میں رات کو جاتا تھا تو آپ مٹھار دیتے تھے۔ (رواہ النسائی کمافی المشکوٰۃ ص 401) فائدہ (3): اگر کوئی شخص کسی شیخ یا استاد کے پاس جائے اور دروازہ بجائے بغیر وہیں دروازہ سے ہٹ کر ایک طرف اس انتظار میں بیٹھ جائے کہ اندر سے نکلیں گے تو بات کرلوں گا یا کوئی مسئلہ پوچھ لوں گا یا آپ کے ساتھ مدرسہ یا بازار جانے کے لیے ہمراہ ہوجاؤں گا تو یہ جائز ہے۔ کیونکہ اس سے اہل خانہ کو کوئی زحمت اور تکلیف نہیں ہوگی۔ فائدہ (4): اگر کسی کے کو اڑوں پر دستک دیں تو اتنے زور سے ہاتھ نہ ماریں کہ اہل خانہ پریشان ہوجائیں۔ سوتے ہوئے جاگ اٹھیں یا نماز پڑھنے والے تشویش میں پڑجائیں اتنے آہستہ سے بجائے کہ اندر آواز پہنچ جائے کہ کوئی شخص دروازہ پر ہے۔
Top