Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّلْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں کو يَغْضُضْنَ : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِنَّ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظْنَ : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُنَّ : اپنی شرمگاہیں وَلَا يُبْدِيْنَ : اور وہ ظاہر نہ کریں زِيْنَتَهُنَّ : زپنی زینت اِلَّا : مگر مَا : جو ظَهَرَ مِنْهَا : اس میں سے ظاہر ہوا وَلْيَضْرِبْنَ : اور ڈالے رہیں بِخُمُرِهِنَّ : اپنی اوڑھنیاں عَلٰي : پر جُيُوْبِهِنَّ : اپنے سینے (گریبان) وَلَا يُبْدِيْنَ : اور وہ ظاہر نہ کریں زِيْنَتَهُنَّ : اپنی زینت اِلَّا : سوائے لِبُعُوْلَتِهِنَّ : اپنے خاوندوں پر اَوْ : یا اٰبَآئِهِنَّ : اپنے باپ (جمع) اَوْ : یا اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ : اپنے شوہروں کے باپ (خسر) اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ : یا اپنے بیٹے اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ : یا اپنے شوہروں کے بیٹے اَوْ اِخْوَانِهِنَّ : یا اپنے بھائی اَوْ : یا بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ : اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے) اَوْ : یا بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ : یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے) اَوْ نِسَآئِهِنَّ : یا اپنی (مسلمان) عورتیں اَوْ مَا مَلَكَتْ : یا جن کے مالک ہوئے اَيْمَانُهُنَّ : انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں) اَوِ التّٰبِعِيْنَ : یا خدمتگار مرد غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ : نہ غرض رکھنے والے مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد اَوِ الطِّفْلِ : یا لڑکے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ لَمْ يَظْهَرُوْا : وہ واقف نہیں ہوئے عَلٰي : پر عَوْرٰتِ النِّسَآءِ : عورتوں کے پردے وَلَا يَضْرِبْنَ : اور وہ نہ ماریں بِاَرْجُلِهِنَّ : اپنے پاؤں لِيُعْلَمَ : کہ جان (پہچان) لیا جائے مَا يُخْفِيْنَ : جو چھپائے ہوئے ہیں مِنْ : سے زِيْنَتِهِنَّ : اپنی زینت وَتُوْبُوْٓا : اور تم توبہ کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ( آگے) جَمِيْعًا : سب اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ : اے ایمان والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور مومن عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی آنکھوں کو پست رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں اور اپنی رینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے، اور اپنے دو پٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپوں پر، یا اپنے شوہروں کے باپوں پر، یا اپنے بیٹوں پر، یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر، یا اپنے بھائیوں پر، یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پر، یا اپنی عورتوں پر، یا اپنی مملوکہ باندیوں پر، یا ایسے مردوں پر جو طفیلی بن کر رہے ہیں جنہیں کوئی حاجت نہیں، یا ایسے لڑکوں پر جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے، اور مومن عورتیں زور سے اپنے پاؤں نہ ماریں تاکہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے، اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے حضور میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
حفاظت نظر اور حفاظت شرمگاہ کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا (وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا) (اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اس سے اوپر کی چادر مراد ہے۔ جب عورت اچھی طرح کپڑوں میں لپٹ کر چوڑی چکلی چادر اوڑھ کر منہ چھپا کر کسی ضرورت سے باہر نکلے گی تو اوپر کی چادر پر مردوں کی نظر پڑے گی، چونکہ عورت مجبوری سے نکلی ہے اور اوپر کی چادر پر شہوت کی نظر بھی نہیں پڑتی اس لیے اس طرح کا نکلنا ممنوع نہیں ہے۔ اس پر نظر پڑجائے تو یہ اس اظہار میں شامل نہیں ہے جو ممنوع ہے۔ اظہار زینت کی ممانعت کے بعد فرمایا (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ ) (اور چاہیے کہ مومن عورتیں اپنے دو پٹوں کو اپنے گربیانوں پر ڈالے رہا کریں) اس میں سینہ ڈھانکے رہنے کا حکم فرمایا ہے کیونکہ گریبان عموماً سینے پر ہی ہوتا ہے، زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر دوپٹے ڈال کر دونوں کنارے پشت کی طرف چھوڑ دیا کرتی تھیں جس سے گریبان اور گلا اور سینہ اور کان کھلے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ ان چیزوں کو چھپا کر رکھیں۔ صحیح بخاری (ص 700 ج 2) میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ ) کا حکم نازل فرمایا تو صحابی عورتوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنا لیے، یہ حدیث سنن ابی داؤد (کتاب اللباس ج 2 ص 211) میں بھی ہے اس میں یہ لفظ ہے کہ شققن اکثف مروطھن فاختمرن بھا کہ انہوں نے اپنی موٹی موٹی چادروں کو کاٹ کر دوپٹے بنا لیے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ سروں کے دوپٹے ایسے ہوں جن میں بال نظر نہ آئیں اور انہیں اس طرح اوڑھا جائے کہ سر گردن اور کان اور سینہ سب ڈھکا رہے) یاد رہے کہ یہ عام حالات میں گھروں میں رہتے ہوئے عمل کرنے کا حکم ہے باہر نکلنے کا اس میں ذکر نہیں ہے باہر نکلنے میں چہرہ ڈھانکنا بھی لازم ہے جبکہ نامحرموں کی نظریں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ دور حاضر کی فیشن ایبل عورتیں جنہیں قرآن و حدیث کے احکام کا دھیان نہیں ہے اول تو انہوں نے باریک دوپٹے بنا لیے ہیں جن میں بال نظر آتے ہیں انہیں اوڑھ کر نماز بھی نہیں ہوتی دوسرے ذرا سے حصے پر کپڑا ڈال کر چل دیتی ہیں زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح آدھے آدھے سینے تک سب کچھ کھلا رہتا ہے۔ ان کو گرمی کھائے جاتی ہے، اسلام کے تقاضوں کی کچھ پر واہ نہیں کرتی ہیں۔ اس کے بعد ان مردوں کا ذکر فرمایا جن کے سامنے زینت کا اظہار جائز ہے۔ یہ وہ مرد ہیں جو شرعا محرم مانے جاتے ہیں ان سے فتنے کا خطرہ نہیں کیونکہ محرم خود ان عورتوں کی عصمت و عفت کے محافظ ہوتے ہیں پھر ان کا رشتہ ایسا ہے کہ رہن سہن میں ان سے پردہ کا اہتمام کرنا دشوار بھی ہے۔ اب اس کی تفسیر سنئے اولا یوں فرمایا (وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ ) (اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر) میاں بیوی کا آپس میں کسی جگہ کا کوئی پردہ نہیں لیکن اعضائے مخصوصہ کو نہ دیکھنا پھر بھی افضل ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ما نظرت فرج رسول اللہ ﷺ قط میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کی شرم کی جگہ کو نہیں دیکھا۔ بلکہ بیوی کا بےتکلفی والا جو خاص کام ہے اس وقت بھی پوری طرح ننگے ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اَوْ آبَاءِہِنَّ (یا اپنے باپوں پر) اَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ (یا اپنے شوہروں کے باپوں پر) اَوْ اَبْنَاءِہِنَّ (یا اپنے بیٹوں پر) اَوْ اَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ (یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر) اپنے بیٹے ہوں یا دوسری بیوی سے ہوں۔ اَوْ اِِخْوَانِہِنَّ (یا اپنے بھائیوں پر) اَوْ بَنِیْ اِِخْوَانِہِنَّ (یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر) اَوْ بَنِیْ اَخْوَاتِہِنَّ (یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پر) آیت کریمہ کے مندرجہ بالا الفاظ سے معلوم ہوا کہ عورت کا اپنا باپ (جن میں دادا بھی شامل ہے) اور شوہر کا باپ اور اپنے لڑکے اور شوہر کے لڑکے (جو کسی دوسری بیوی سے ہوں) اور اپنے بھائی (خواہ حقیقی بھائی ہوں خواہ باپ شریک بھائی ہوں خواہ ماں شریک) اور اپنے بھائیوں کے لڑکے اور اپنی بہنوں کے لڑکے (اس میں تینوں قسم کے بہن بھائی داخل ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا) ان لوگوں کے سامنے عورت زیب وزینت کے ساتھ آسکتی ہے اور یہ لوگ عورت کے محارم کہلاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو بھی اپنی محرم عورتوں کا پورا بدن دیکھنا جائز نہیں ہے یہ لوگ اپنی محرم عورت کا چہرہ اور سر اور بازو و پنڈلیاں دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ عورت کو دیکھنے والے مرد کو اپنے نفس پر اطمینان ہو یعنی جانبین میں سے کسی کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو اور اپنی محرم عورت کی پشت اور پیٹ ان کو دیکھنا جائز نہیں ہے اگرچہ شہوت کا اندیشہ نہ بھی ہو۔ محرم اس کو کہتے ہیں جس سے کبھی بھی نکاح کرنا حلال نہ ہو، جن لوگوں کا ذکر ہوا ان کے علاوہ چچا ماموں بھی محارم ہیں۔ دودھ شریک بھائی بہن اور رضاعی بیٹا (جسے دودھ پلایا ہو) بھی محرم ہیں۔ ان لوگوں کے بھی وہی احکام ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ خالہ اور پھوپھی اور چچا تایا کے لڑکے اور بہنوئی محرم نہیں ہیں۔ ان کا وہی حکم ہے جو غیر محرم کا حکم ہے۔ اس کے بعد فرمایا (اَوْ نِسَآءِہِنَّ ) (یا اپنی عورتوں کے سامنے) یعنی مسلمانوں عورتیں مسلمان عورتوں کے سامنے اپنی زینت ظاہر کرسکتی ہیں، صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ ایک مرد دوسرے مرد کے سارے بدن کو دیکھ سکتا ہے البتہ ناف سے لے کر گھٹنے تک مرد بھی مرد کو نہیں دیکھ سکتا۔ اس طرح عورت بھی دوسری عورت کے سارے بدن کو دیکھ سکتی ہے البتہ ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصہ کو نہیں دیکھ سکتی اور ان دونوں مسئلوں میں بھی وہی قید ہے کہ شہوت کی نظر نہ ہو۔ بہت سی عورتیں ولادت کے وقت بہت زیادہ بےاحتیاطی کرتی ہیں۔ دائی اور نرس کو بچہ پیدا کرانے کے لیے بقدر ضرورت صرف پیدائش کی جگہ دیکھنا جائز ہے اس سے زیادہ دیکھا منع ہے۔ آس پاس جو عورتیں موجود ہوں اگرچہ ماں بہن ہی ہوں وہ بھی ناف سے لے کر گھٹنے تک حصہ کو نہ دیکھیں کیونکہ ان کا دیکھنا بلا ضرورت ہے۔ نرس اور دائی کو مجبوراً نظر ڈالنی پڑتی ہے دوسری عورتوں کو کوئی مجبوری نہیں ہے لہٰذا انہیں دیکھنے کی اجازت نہیں، یہ جو دستور ہے کہ ولادت کے وقت عورت کو ننگا کر کے ڈال دیتی ہیں اور عورتیں دیکھتی رہتی ہیں یہ حرام ہے۔ آیت شریفہ میں جو (اَوْ نِسَآءِہِنَّ ) (اپنی عورتیں) ہے اس میں لفظ اپنی سے حضرات مفسرین عظام اور فقہاء کرام نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ جو کافر عورتیں ہیں ان کے سامنے مسلمان عورتیں بےپردہ ہو کر نہ آئیں کیونکہ وہ اپنی عورتیں نہیں ہیں۔ مفسرین ابن کثیر نے حضرت مجاہد تابعی سے نقل کیا ہے کہ لا تضع المسلمۃ خمارھا عند مشرکۃ لان اللہ تعالیٰ یقول اونساءھن (یعنی مسلمان عورت اپنا دوپٹہ کسی مشرک عورت کے سامنے اتار کر نہ رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اونساءھن فرمایا ہے اور مشرک عورتیں مسلمان عورتوں میں سے نہیں ہیں) ہر کافرہ عورت مشرکہ یا غیر مشرکہ سب کا یہی حکم ہے۔ معالم التنزیل میں ہے۔ و الکافرۃ لیست من نسائنا لانھا اجنبیۃ فی الدین کتب عمر بن الخطاب الی ابی عبیدۃ ابن الجراح ؓ عنھما ان یمنع نساء اھل الکتاب ان یدخلن الحمام مع المسلمات (کافر عورت ہماری عورتوں میں سے نہیں ہیں۔ حضرت عمر نے ابو عبیدہ بن جراح کو لکھا تھا کہ اہل کتاب عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمامات میں داخل ہونے سے منع کریں) ۔ درمختار کتاب الخطر والا باحہ میں ہے الذمیۃ کالر جل الا جنبی فلا تنظر الی بدن المسلمۃ (ذمی عورت یعنی کافر عورت جو مسلمانوں کی عمل داری میں رہتی ہو وہ مسلمان عورت کے بدن کو نہ دیکھے) اس کے ذیل میں صاحب ردالمختار نے لکھا ہے : لا یحل للمسلمۃ ان تنکشف بین یدی یھودیۃ او نصر انیۃ اور مشرکۃ الا ان تکون امۃ لھا کمافی السراج و نصاب الا حتساب و لا ینبغی للمرءۃ الصالحۃ ان تنظر الیھا المراۃ الفاجرۃ لانھا تصفھا عند الر جال فلا تضع جلبابھا و لا خمارھا کما فی السراج (مسلمان عورت کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ یہودیہ یا نصرانیہ یا مشرکیہ عورت کے سانے بےپردہ ہو ہاں اگر اس کی اپنی مملوکہ باندی ہو تو اس کے سامنے آنا مستثنیٰ ہے اور کسی نیک عورت کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ فاجرہ عورت کے سامنے بےپردہ ہوجائے کیونکہ وہ مردوں کے سامنے اس کا حال بیان کرے گی اس کے سامنے اپنی چادر اور دوپٹے کو نہ اتارے۔ ) (ردالمحتار) مسلمان عورت کافر عورت کے سامنے صرف چہرہ اور ہتھیلیاں کھول سکتی ہے تمام غیر مسلم عورتیں بھنگن گھوبن نرس لیڈی ڈاکٹر وغیرہ جو بھی ہوں ان سب کے متعلق وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا۔ بچے پیدا کرانے کے لیے مسلمان دائیاں اور نرسیں بلائیں اور یہ بھی بقدر ضرورت پیدائش کی جگہ نظرڈال سکتی ہیں اور اگر کسی غیر مسلم عورت کو بچہ جنوانے کے لیے بلوائیں تو اس کے سامنے کوئی عورت سر نہ کھولے اور جہاں تک ممکن ہو کافر عورت کو بلانے سے پرہیز کریں۔ ذکر ابن کثیر فی تفسیرہ عن مکحول و عبادۃ بن نسی انھما کرھا ان تقبل لا تکون قابلۃ ای حاضرۃ عند الولاد لتعمل عمل الا ستبلاد حینا اتلد المسلمۃ النصرانیۃ و الیھودیۃ و المجو سیۃ المسلمۃ۔ (اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ ) (یا ان کے سامنے جو ان کی مملوک ہیں) ابھی پردہ کا بیان جاری ہے جب مسلمان شرعی جہاد کرتے ہیں تو غلاموں باندیوں کے مالک ہوتے تھے جب سے شرعی جہاد کو چھوڑا ہے اور کافروں کے ساتھ معاہدوں میں بندھے ہیں پست ہو رہے ہیں۔ جب باندی اور غلام ہوتے تھے تو عورتیں بھی ان کی مالک ہوتی تھیں اس وقت یہ سوال بھی در پیش ہوتا تھا کہ عورت کا اپنے غلام سے اور اپنی باندی سے کتنا پردہ ہے (اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ ) میں اسی کو بیان فرمایا ہے حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے اس سے صرف باندیاں مراد ہیں، مرد مملوک یعنی غلام مراد نہیں ہیں۔ حضرت امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ حضرت سعید بن مسیب پہلے یوں کہتے تھے کہ غلام اور باندی کا ایک ہی حکم ہے (یعنی کسی مسلمان عورت کا اس کے اپنے مملوک غلام یا باندی سے وہ پردہ نہیں جو اجانب سے ہے) بعد میں انہوں نے رجوع فرمایا اور فرمایا لا یغرنکم آیۃ النور فانھا فی الاناث دون الذکور (یعنی تم سورة نور کی آیت کی وجہ سے دھوکہ میں مت پڑنا کیونکہ وہ مملوکہ عورتوں کے بارے میں ہے مملوک مردوں کے بارے میں ہے مملوک مردوں کے بارے میں نہیں ہے) صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ عورت کا غلام اگرچہ اس کا مملوک ہے لیکن وہ مرد ہے نہ محرم ہے نہ شوہر ہے اور شہوت متحقق ہے لہٰذا مملوک غلام کا وہی حکم ہے جو اجنبی مردوں کا حکم ہے۔ علامہ قرطبی نے احکام القرآن جلد 12، ص 233، 234 میں حضرت ابن عباس، حضرت عامر شعبی اور حضرت مجاہد اور حضرت عطاء سے نقل کیا ہے کہ غلام مملوک اپنی آقا عورت کے بالوں پر نظر نہ ڈالے۔ گھروں میں کام کرنے والے جو نوکر چاکر ہیں ان کا حکم بھی بالکل وہی ہے جو اجنبی مردوں کا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں اسی طرح جو عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں وہ مملوک اور باندیاں نہیں ہیں ان پر بھی لازم ہے کہ مردوں سے پردہ کریں جن کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور مردوں پر بھی لازم ہے کہ ان پر نظریں نہ ڈالیں۔ (اَوْ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُوْلِی الْاِِرْبَۃِ مِنْ الرِّجَالِ ) (یا ان مردوں کے سامنے جو طفیلیوں کے طور پر ہوں جنہیں حاجت نہیں ہے) مطلب یہ ہے کہ بد حواس اور مغفل قسم کے لوگ ہوں جن کو شہوت سے کوئی واسطہ نہیں عورتوں کے احوال اور اوصاف سے کوئی دلچسپی نہیں انہیں بس کھانے پینے کو چاہئے طفیلی بن کر پڑے رہتے ہیں ایسے لوگوں کے سامنے عورتیں اگر زینت ظاہر کر دے تو یہ بھی جائز ہے یعنی یہ لوگ بھی محارم کے درجہ میں ہیں آیت کا یہ مطلب حضرت ابن عباس سے منقول ہے انہوں نے فرمایا ھذا الر جال بتبع القوم و ھو مغفل فی عقلہ لا یکترث للنساء و لا یشھی عن نساء۔ (درمنثور ص 43 ج 5) حضرت طاؤس تابعی سے بھی اسی طرح کے الفاظ منقول ہیں انہوں نے فرمایا ھو الا حمق الذی لا حاجۃ لہ فی النساء۔ (حوالہ بالا) یاد رہے کہ اگر مذکورہ مردوں کے سامنے عورت گہرے پردہ کا اہتمام نہ کرے (محرموں کی طرح سمجھے) تو اس کی اجازت تو ہے لیکن عورتوں کو ان پر شہوت کی نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ (غَیْرِ اُوْلِی الْاِِرْبَۃِ ) اور حضرت ابن عباس کی تفسیر سے معلوم ہوگیا کہ ان مردوں کے سامنے عورتیں آسکتی ہیں جو غافل ہوں مغفل ہوں بےعقل ہوں نہ ان میں شہوت ہو نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو، ان میں بوڑھے مرد ہوش گوش عقل سمجھ اور شہوت والے ہیجڑے داخل نہیں ہیں۔ عورتیں ایسے لوگوں کو بوڑھا سمجھ کر یا بابا دادا کہہ کر سامنے آجاتی ہیں۔ یہ گناہ کی بات ہے نیز اگر کوئی شخص نا مرد ہو یا اس کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہو وہ بھی (غَیْرِ اُوْلِی الْاِِرْبَۃِ ) میں شامل نہیں ہے۔ اور اس کے سامنے آنا بھی ممنوع ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اہلیہ مطہرہ ام سلمہ کے پاس تھے وہاں گھر میں اس وقت ایک مخنث (ہیجڑہ) بھی تھا اس ہیجڑہ نے حضرت ام سلمہ کے بھائی سے کہا کہ اے عبداللہ اگر اللہ تعالیٰ نے طائف کو فتح فرما دیا میں تجھے غیلان کی بیٹی بتادوں گا وہ جب سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ میں چار شکنیں ہوتی ہیں اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو اس کی کمر سے آٹھ شکنیں نظر آتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس کی بات سن کر ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ہرگز تمہارے گھروں میں نہ آئیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح 270 از بخاری و مسلم) قال صاحب الھدایۃ الخصی فی النظر الی الا جنبیۃ کالفحل لقول عائشۃ ؓ الخصاء مثلۃ لا یبیح ما کان حراما قبلہ و لانہ فحل یجامع و کذا المحبوب لانہ یسحق و ینزل و کذا المحنث فی الردئی من الا فعال لانہ فحل و الحاصل انہ یوخذ فیہ بحکم کتاب اللہ المنزل۔ (اَوْ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرَات النِّسَاءِ ) (یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کے پردہ کی چیزوں پر مطلع نہیں ہوئے) یعنی وہ نا بالغ لڑکے جو عورتوں کے مخصوص حالات اور صفات سے بالکل بیخبر ہیں ان کے سامنے عورت آسکتی ہے اور جو لڑکا عورتوں سے متعلقہ احوال اور اوصاف کو جانتا اور سمجھتا ہو اس سے پردہ کرنا واجب ہے۔ (وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ) (اور عورتیں اپنے پاؤں نہ ماریں یعنی زور سے نہ رکھیں تاکہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم نہ ہوجائے) عورتوں کو زیور پہننا تو جائز ہے بشرطیکہ دکھاوے کے لیے نہ ہو اور جو زیور پہنے اس میں یہ شرط ہے کہ بجنے والا زیور نہ ہو تو زیور کے اندر کوئی بجنے والی چیز ڈالے اور نہ زور سے پاؤں مار کر چلے کیونکہ ایسا کرنے سے غیر محرم زیور کی آواز سن لیں گے جو آپس میں ٹکرا کر بج سکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس ایک لڑکی لائی گئی وہ بجنے والا زیور پہنے ہوئے تھی حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جب تک اس کا یہ زیور نہ کاٹ دو ہرگز میرے پاس نہ لاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں بجنے والی چیز ہو۔ (رواہ ابو داؤد) جب زیور کی آواز سنانا نا محرموں کو ممنوع ہے تو عورت کے لیے اپنی آواز سنانے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بدرجہ مجبوری نا محرموں سے ضرورت کی کوئی بات کی جائے تو اس کی گنجائش ہے اس کو سمجھ لیا جائے۔ عورت اگر باہر نکلے تو خوب اہتمام کے ساتھ پردہ میں نکلے اور پردہ کے لیے جو بڑی چادر یا برقعہ استعمال کرے وہ بھی مزین اور کا مدار اور بیل بوٹے والا مردوں کی نظر کو لبھانے والا نہ ہو۔ اور جب زیور کی آواز سنانا جائز نہیں تو نا محرموں کو خوشبو سنگھانا بطریق اولیٰ ممنوع ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر آنکھ زنا کار ہے اور کوئی عورت عطر لگا کر (مردوں کی) مجلس کے قریب سے گزرے تو ایسی ہے ویسی ہے یعنی زنا کار ہے۔ (رواہ ابو داؤد) (وَتُوْبُوْا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (اے مومنو ! تم سب اللہ کے حضور میں توبہ کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ) اس میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو حکم دیا کہ سب اللہ کے حضور میں توبہ کریں۔ توبہ کرنے میں کامیابی ہے۔ ہر طرح کے تمام گناہوں سے توبہ کریں اور نفس و نظر سے جو گناہ صادر ہوگئے ہوں ان سے خاص طور پر توبہ کریں نفس و نظر کا ایسا گناہ ہے جس پر دوسروں کی اطلاع نہیں ہوتی اور نظروں کو اور نفسوں کے ارادوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا وہ جانتا ہے جو مبتلائے معصیت ہو۔ کسی مرد نے کسی مرد یا عورت کو بری نظر سے دیکھ لیا یا کسی عورت نے کسی مرد پر نفسانیت والی نظر ڈال دی تو اس کا اس شخص کو پتہ نہیں چلتا جس پر نظر ڈالی ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کو پتہ چلتا ہے اپنے نفس و نظر کی خود ہی نگرانی کرتے رہیں اور ہر گناہ سے توبہ کریں۔ بے پردگی کے حامیوں کی جاہلانہ باتیں اور ان کی تردید جب سے لوگوں میں صرف اسلام کا دعویٰ رہ گیا ہے اور اسلام پرچلنے کی ہمت نہیں کرتے اور یہ چاہتے ہیں کہ دیندار بھی رہیں اور آزاد بھی رہیں ایسے لوگ بےپردگی کے حامی ہیں یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان عورتیں کافر عورتوں کی طرح گلی کوچوں میں پھریں اور بازاروں میں گشت لگائیں ان آزاد منش جاہلوں کی جہالت کا ساتھ دینے والے بعض مصری قلم کار بھی مل گئے پھر مصر کے ان نام نہاد آزاد خیال لوگوں کا اتباع ہندو پاک کے نا خدا ترس مضمون نگار بھی کرنے لگے۔ ان لوگوں کو اور تو کچھ نہ ملا (اِلاَّ مَاظَھَرَ مِنْھَا) مل گیا اور الاَّ مَاظَھَرَ کی تفسیر جو حضرت ابن مسعود نے کی ہے کہ اس سے اوپر کی چادر مراد ہے چونکہ یہ ان لوگوں کے جذبات نفسانیہ کی خلاف تھی اس لیے اس سے تو اعراض کیا اور حضرت ابن عباس سے جو اس کی تفسیر میں وجہ اور کفین منقول ہے اسے لے اڑے، کیا وجہ ہے حضرت ابن مسعود کی تفسیر کو چھوڑا جبکہ وہ پرانے صحابی ہیں سابقین اولین میں سے ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے تمسکوا بعھد ابن ام عبد کہ ام عبد کے بیٹے (ابن مسعود) کی طرف سے جو دینی حکم ملے اس کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ (مشکوٰۃ ص 578) حضرت ابن عباس مفسر قرآن تھے اور بڑے عالم تھے رسول اللہ ﷺ نے ان کو (اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ ) کی دعا بھی دی تھی اگر ان کی اس تفسیر کو لیا جائے جو انہوں نے الوجہ و الکفان سے کی ہے تب بھی اس سے عورتوں کو بےپردہ ہو کر نکلنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اول تو آیت شریفہ میں الاَّ مَا ظَھَرَ فرمایا ہے (اَلاَ مَا اَظْھَرْنَ ) نہیں فرمایا (یعنی یہ نہیں فرمایا کہ عورتیں ظاہر کیا کریں بلکہ یوں فرمایا کہ جو ظاہر ہوجائے) اب سمجھ لیں جب عورت چہرہ کھول کر باہر نکلے گی تو اظہار ہوگا یا ظہور ہوگا ؟ کیا اس کو یوں کہیں گے کہ بلا اختیار ظاہر ہوگیا ہے ؟ پھر یہ بھی واضح رہے کہ آیت میں نا محرم کے سامنے ظاہر ہونے کا ذکر نہیں ہے، عورتوں کی پردہ دری کے حامی یہاں نا محرموں کو گھسیٹ کر خود سے لے آئے، حضرت ابن عباس ؓ کے کلام میں نا محرموں کے سامنے عورت کے چہرہ اور کفین کے ظاہر ہونے اور ظاہر کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے ان کی بات کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ عورت کو عام حالات میں جبکہ وہ گھر میں کام کاج میں لگی ہوئی ہو سارے کپڑے پہنے رہنا چاہئے اگر چہرہ اور ہاتھ کھلا رہے اور گھر کی عورتیں اور باپ بیٹے اور دوسرے محرموں کی نظر پڑجائے تو یہ جائز ہے۔ لوگوں میں یوں ہی بےدینی ہے اور عفت و عصمت سے دشمنی ہے اوپر سے انہیں یہ مفت کے مفتی بھی مل گئے جنہوں نے کہہ دیا کہ چہرہ کا پردہ نہیں ہے اگر ہے تو درجہ استحباب میں ہے ان جاہل مفتیوں نے نہ آیات اور احادیث کو دیکھا کہ اور نہ یہ سوچا کہ عورت بےپردگی کو صرف چہرہ تک محدود نہ رکھے گی عورت کا مزاج تو بننے ٹھننے اور دکھانے کا ہے اب دیکھ لو بےپردہ باہر نکلنے والی عورتوں کا کیا حال ہے کیا صرف چہرہ ہی کھلا رہتا ہے ؟ ان لوگوں نے حضرت ابن عباس کے قول کو دیکھ لیا اور ان کا مطلب غلط لے لیا پھر اپنی ذاتی رائے کو عورتوں میں پھیلایا اور ان من العلم جھلا کا مصداق بن گئے۔ سورۂ احزاب میں عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم اول سورة احزاب کی آیت (وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ) (اور جب تم ان سے کسی برتنے کا سوال کرو تو ان سے پردہ کے پیچھے سے مانگو) پڑھیے اور غور کیجیے کہ اگر چہرہ پردہ میں نہیں ہے تو پردہ کے پیچھے سے مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یوں بھی عورتیں عام طور سے گھروں میں ننگی تو نہیں رہتی ہیں عموماً ہاتھ اور چہرہ کھلا رہتا ہے اگرچہرہ کا پردہ نہیں تو نامحرم مردوں کو کوئی چیز لینے کے لیے پردہ کے باہر سے طلب کرنے کا حکم کیوں فرمایا ؟ تو معلوم ہوا کہ چہرہ ہی اصل پردہ کی چیز ہے پھر اس میں صیغہ امر بھی ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے اس سے ان جاہلوں کی بات کی تردید ہوگئی جو یوں کہتے ہیں کہ چہرہ کا ڈھانپنا اعلیٰ و افصل ہے واجب بھی نہیں ہے، اب سورة احزاب کی ایک اور آیت سنئے ارشاد بانی ہے (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ اَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ) (اے پیغمبر اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کو نیچا کرلیا کریں) اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا امر نساء المومنین ان یغطین رء وسھن و وجو ھن بالجلابیب الا عینا واحدۃ لیعلم انھن حرائر (معالم التنزیل ج 3 ص 544) یعنی مومنین کی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سروں کو اور چہروں کو بڑی چوڑی چکلی چادروں سے ڈھانکے رہا کریں صرف ایک آنکھ کھلی رہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ باندیاں نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی ابن عباس ہیں جن کی طرف (اِلاَّ مَاظَھَرَ مِنْھَا) کی تفسیر الوجہ و الکفان منسوب ہے معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ جو فرمایا ہے کہ (اِلاَّ مَاظَھَرَ مِنْھَا) سے وجہ و کفین مراد ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کھلا چہرہ لے کرنا محرموں کے سامنے آ جایا کریں یا چہرہ کھول کر باہر نکلاکریں جب انہوں نے اس دوسری آیت کی تفسیر میں یہ فرما دیا کہ بڑی چادروں سے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانکے رہیں اور دیکھنے کی ضرورت سے صرف ایک آنکھ کھلی رہے تو معلوم ہوا کہ (اِلاَّ مَا ظَھَرَ ) کی تفسیر میں جو انہوں نے وجہ اور کفین فرمایا ہے اس سے ان کے نزدیک گھروں میں رہتے ہوئے چہرہ اور ہاتھ کھلے رہنے کی اجازت مراد ہے۔ شیطان بڑے بڑے وسوسے ڈالتا ہے اور گمراہی کے راستے دکھاتا ہے اس نے پردہ کے مخالفین کو یہ بات سمجھائی ہے کہ پردہ کا حکم رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے لیے ہے اور انہیں کے لیے مخصوص ہے ان لوگوں کی اس جاہلانہ بات کی تردید سورة احزاب کے لفظ سے واضح طور پر ہو رہی ہے کیونکہ اس میں لفظ (وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) موجود ہے پھر ایک موٹی سمجھ والا انسان (جسے خوف خدا ہو) یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے جب ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم ہے جن کے بارے میں (وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھَاتُھُمْ ) (اور آپ کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں) فرمایا ہے جن پر کسی مومن کی بری نظر پڑنے کا احتمال ہی نہ تھا تو ان عورتوں کے بارے میں پردہ کا حکم کیونکر نہ ہوگا جن کی طرف قصداً بری نظریں اٹھائی جاتی ہیں اور جو خود مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، کیا کسی صحیح العقل انسان کی سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ خاندان نبوت کی چند خواتین کو پردہ کا حکم دیکر امت کی کروڑہا عورتوں کو قدیم زمانہ کی جاہلیت اولیٰ کی طرح بےپردہ ہو کر باہر پھرنے کی اجازت دیدی ہو۔ احادیث میں پردہ کا حکم اب احادیث شریفہ کا مطالعہ کیجیے ان ہی اوراق میں گزر چکا ہے کہ جب غزوہ بنی المصطلق کے موقعہ پر حضرت صفوان بن معطل ؓ کی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر نظر پڑی اور حضرت عائشہ ؓ نے ان کے (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ) پڑھنے کی آواز سنی تو حضرت عائشہ کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے فوراً اپنا چہرہ ڈھانپ لیا وہ فرماتی ہیں کہ صفوان نے مجھے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے دیکھے تھا اسی سے سمجھ لیا جائے کہ پردہ کا جو حکم نازل ہوا تھا وہ چہرہ سے بھی تھا ورنہ انہیں چہرہ ڈھانپنے کی اور یہ بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ انہوں نے مجھے نزول حجاب کے حکم سے پہلے دیکھا تھا۔ نیز چند صفحات پہلے یہ واقعہ بحوالہ صحیح بخاری گزر چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اہلیہ محترمہ ام سلمہ ؓ کے پاس تھے وہیں ایک ہیجڑا بھی تھا اس نے حضرت ام سلمہ کے بھائی سے کہا اگر اللہ تعالیٰ نے طائف کو فتح کردیا تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی بتادوں گا جو ایسی ایسی ہے اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ہرگز تمہارے گھروں میں داخل نہ ہوں۔ حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے یوں کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس (اندرون خانہ) اچھے برے لوگ آتے جاتے ہیں۔ (وہاں امہات المومنین بھی ہوتی ہیں) اگر آپ امہات المومنین کو پردہ کرنے کا حکم دیدیتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پردہ والی آیت نازل فرمائی (صحیح بخاری ص 706) اس سے صاف ظاہر ہے کہ پردہ کی آیت میں نا محرموں کے سامنے چہرہ ڈھانپنے کا حکم نازل ہوا۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی کپڑے پہنے ہوئے ہی بیٹھی رہتی تھیں۔ حضرت انس ؓ کی ایک روایت اور سنئے وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ شب گزار کر صبح کو ولیمہ کیا تو خوب بڑی دعوت کی لوگ آتے رہے کھاتے رہے اور جاتے رہے کھانے سے فارغ ہو کر سب لوگ چلے گئے لیکن تین اصحاب رہ گئے وہ باتیں کرتے رہے آپ کے مزاج میں حیاء بہت تھی آپ نے ان سے نہیں فرمایا کہ تم چلے جاؤ بلکہ خود حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ کی طرف چلے گئے۔ جب میں نے آپ کو خبر دی کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں تو آپ واپس تشریف لے آئے میں آپ کے ساتھ (حسب عادت) داخل ہونے لگا تو آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور آیت حجاب یعنی آیت کریمہ (یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ ) (آخر تک) اللہ تعالیٰ نے نازل فرما دی۔ (صحیح بخاری ص 707، 706) حضرت انس ؓ پرانے خادم تھے دس برس تک انہوں نے آپ کی خدمت کی جب پردہ کا حکم نازل ہوا تو آپ نے پردہ ڈال دیا اور حضرت انس کو اندر آنے نہیں دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے جو حضرت انس گھروں میں اندر آتے جاتے تھے کیا ازواج مطہرات کپڑے نہیں پہنتی تھیں، کیا چہرہ کے سوا کسی اور جگہ بھی ان کی نظر پڑتی تھی ؟ اگر چہرہ پردہ میں نہیں تو ان کو اندر جانے سے کیوں روکا گیا۔ ازواج مطہرات سے فرما دیتے کہ اس کو آنے جانے دو صرف چہرہ کھلے رکھا کرو لیکن وہاں مستقل داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی۔ اسی سے سمجھ لیا جائے کہ پردہ کا حکم نازل ہوا اس میں اصل چہرہ ہی کا چھپانا ہے ورنہ جسم کے دوسرے حصے پہلے بھی نا محرموں کے سامنے ظاہر نہیں کیے جاتے تھے۔ سنن ابو داؤد کتاب الجہاد میں ہے کہ حضرت ام خلاد کا صاحبزادہ ایک جہاد کے موقعہ پر شہید ہوگیا تھا وہ چہرہ پر نقاب ڈال ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کا یہ حال دیکھ کر کسی صحابی نے کہا کہ تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے کے لیے آئی ہو اور نقاب ڈالے ہوئے ہو ؟ حضرت ام خلاد نے جواب دیا اگر بیٹے کے بارے میں مصیبت زدہ ہوگئی ہوں تو اپنی شرم و حیاء کھو کر ہرگز مصیبت زدہ نہ بنوں گی (یعنی حیاء کا چلا جانا ایسی مصیبت زدہ کردینے والی چیز ہے جیسے بیٹے کا ختم ہوجانا) حضرت ام خلاد کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ تمہارے بیٹے کے لیے دو شہدوں کا ثواب ہے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیوں ؟ ارشاد فرمایا اس لیے کہ اسے اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔ (سنن ابو داؤد ج 1 ص 336) اس واقعہ سے بھی ان مغربیت زدہ مجتہدین کی تردید ہوتی ہے جو چہرہ کو پردہ سے خارج کرتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پردہ ہر حال میں لازم ہے رنج ہو یا خوشی نا محرم کے سامنے بےپردہ ہو کر آنا منع ہے بہت سے مرد اور عورتیں ایسا طرز اختیار کرتے ہیں کہ گویا مصیبت کے وقت شریعت کا کوئی قانون لا گو نہیں ہے جب گھر میں کوئی موت ہوجائے گی تو اس بات کو جانتے ہوئے کہ نوحہ کرنا سخت منع ہے عورتیں زور زور سے نوحہ کرتی ہیں جنازہ گھر سے باہر نکالا جاتا ہے تو عورتیں دروازہ کے ساتھ باہر تک اس کے پیچھے چلی آتی ہیں اور پردہ کا کچھ خیال نہیں کرتیں خوب یاد رکھو غصہ ہو یا رضا مندی، خوشی ہو یا مصیبت ہر حال میں احکام شریعت کی پابندی کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حج وعمرہ کے مسائل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ لا تنتقب المراۃ المحرمۃ (مشکوٰۃ المصابیح 235) یعنی احرام والی عورت نقاب نہ ڈالے اس سے صاف ظاہر ہے کہ زمانہ نبوت میں عورتیں چہروں پر نقاب ڈال کر باہر نکلی تھیں یاد رہے کہ حکم یہ ہے کہ عورت حالت احرام میں چہرہ پر کپڑا نہ ڈالے یہ مطلب نہیں ہے کہ نا محرموں کے سامنے چہرہ کھولے رہے یہ عورتوں میں مشہور ہے کہ حالت احرام میں پردہ نہیں غلط فہمی ہے اس غلط فہمی کو حضرت عائشہ ؓ کی ایک حدیث سے دور کرلیں انہوں نے فرمایا کہ ہم حالت احرام میں حضور اقدس ﷺ کے ساتھ تھے گزرنے والے اپنی سواریوں پر ہمارے پاس سے گزرتے تھے تو ہم اپنی چادر کو اپنے سر سے آگے بڑھا کر چہرہ کے سامنے لٹکا لیتے تھے۔ جب وہ لوگ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 236) مسئلہ یہ ہے کہ احرام والی عورت اپنے چہرہ کو کپڑا نہ لگائے یہ مطلب نہیں ہے کہ نا محرموں کے سامنے چہرہ کھولے رہے اس فرق کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے واضح فرما دیا جیسا کہ ابو داؤد شریف کی روایت میں مذکور ہے۔ بے پردگی کے حامی اپنی دلیل میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسماء بنت ابوبکر سے فرمایا کہ اے اسماء جب عورت کو حیض آجائے یعنی بالغ ہوجائے تو اس کے لیے یہ ٹھیک نہیں ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ کچھ نظر آجائے اول تو یہ حدیث ہی منقطع الا سناد ہے حضرت امام ابو داؤد نے اس کی روایت کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے خالد بن دریک لم یسمع من عائشہ ؓ پھر اس میں بھی نا محرموں کو دیکھنے دکھانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پردہ کے مخالفوں کو یہ منظور ہے کہ ان کی ماں، بہنیں، بہو، بیٹیاں بےپردہ ہو کر باہر نکلیں، خود تو بےشرم ہیں ہی اپنی خواتین کو بھی شرم کے حدود سے پار کرنا چاہتے ہیں۔ پردہ شکنی کی دلیل کے لیے کچھ بھی نہ ملا تو حضرت ابن عباس کے قول کو حجت بنا لیا اور اسے قرآن کریم کے ذمہ لگا دیا حالانکہ قرآن مجید میں وجہ اور کفین کا کہیں ذکر نہیں ہے ان لوگوں کی وہی مثال ہے کہ چوہے کو ہلدی کی ایک گرہ مل گئی تو وہ جلدی سے پنساری بن بیٹھا۔ نماز کے مسئلہ سے دھوکہ کھانے والوں کی گمراہی بعض لوگوں نے نماز کے مسئلہ سے دھوکہ کھایا ہے خود سے دھوکہ کھانے کا بہانہ بنایا ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ نماز کے بیان میں یوں لکھا ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلی ستر میں داخل نہیں ہے اس سے بھلا نا محرموں کے سامنے چہرہ کھولنا کیسے ثابت ہوا ؟ نماز میں جسم ڈھکنے کا مسئلہ اور ہے اور نا محرموں کے سامنے چہرہ کھولنا یہ دوسری بات ہے، دیکھئے صاحب درمختار شروط الصلاۃ کے بیان میں حرہ یعنی آزاد عورت کی نماز میں پردہ پوشی کا حکم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں و للحرۃ جمیع بدنھا حتی شعرھا النازل فی الا صح خلا الوجہ و الکفین و القدمین علی المعتمد اس میں یہ بتایا کہ نماز میں آزاد عورت کے لیے چہرہ اور ہتھیلیاں اور دونوں قدم کے علاوہ سارے بدن کا ڈھانکنا لازم ہے یہاں تک کہ جو بال سر سے لٹکے ہوئے ہوں ان کا ڈھانکنا بھی ضروری ہے اس کے بعد لکھتے ہیں۔ و تمنع المرء ۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لا لانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ کمسہ و ان امن الشھوۃ لانہ اغلظ و لذاثبتت بہ حرمۃ المصاھرۃ ولا یجوز النظر الیہ بشھوۃ کو جہ الامرد فانہ یحرم النظر الی و جھھا و وجہ الا مرد اذا شک فی الشھوۃ اما بدونھا فیباح ولو جمیلا کما اعتمدہ الکمال۔ فقہاء پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو نماز کے مسئلے سے نا محرموں کے سامنے چہرہ کھولنے پر استدلال کرسکتے ہیں اس لیے انہوں نے کتاب الصلوٰۃ ہی میں نماز میں ستر عورت کا حکم بتا کر فوراً اسی جگہ یہ بھی بتادیا کہ جوان عورت کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے منع کیا جائے گا کیونکہ اس میں فتنہ کا ڈر ہے اور جوان عورت کے چہرہ کی طرف اور بےریش لڑکے کے چہرے کی طرف شہوت سے دیکھنا جائز نہیں ہے جبکہ اس میں شک ہو کہ شہوت یعنی نفس کی کشش ہوگی جب اس میں شک ہو کہ دیکھنے میں شہوت ہوگی یا نہیں اس صورت میں نہ صرف یہ کہ عورت کے چہرہ پر نظرڈالنا حرام ہے بلکہ بےریش کو دیکھنا بھی حرام ہے۔ پھر جب شہوت کا یقین ہو یا غالب گمان ہو تو نظر ڈالنا کیونکر حرام نہیں ہوگا ؟ اب سمجھ لیا جائے کہ اس زمانہ میں جو عورت چہرہ کھول کر باہر نکلے گی اس پر نظریں ڈالنے والے مرد عموماً شہوت والے ہیں یا بلا شہوت والے ہیں۔ صاحب جلالین کی عبارت پڑھئے وہ لکھتے ہیں ولا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا ظَہَرَ وَ ھو الوجہ و الکفان فیجوز نظرہ لا جنبی ان لم یخف فتنۃ فی احد الوجھین و الثانی یحرم لانہ مظنۃ الفتنۃ و رجح حسماللباب یعنی مَا ظَھَرَ مِنْھَا سے (حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق) چہرہ اور ہتھیلیاں مراد ہیں لہٰذا اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو اجنبی کو دیکھنا جائز ہے یہ (شافیعہ کے نزدیک) ایک رائے ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ چہرہ کو دیکھنے میں فتنہ کا احتمال ہے اس لیے اجنبی کو نا محرم عورت کا چہرہ دیکھنا حرام ہے اس رائے کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ فتنہ کا دروازہ بالکل بند ہوجائے (معلوم ہوا کہ محققین شافعیہ کا بھی یہی فرمانا ہے کہ چہرہ کا پردہ کرنا لازم ہے) ۔ تکمیل : اسلام میں حیا اور شرم کی بہت اہمیت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے (مشکوٰۃ المصابیح ص 432) حیا کے تقاضوں میں جہاں نا محرموں سے پردہ کرنا ہے وہاں مردوں کے آپس کے اور عورتوں کے آپس کے پردہ کے بھی احکام ہیں حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کوئی مرد کسی مرد کی شرم کی جگہ کو نہ دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ کی جگہ کو دیکھے اور نہ دو مرد (کپڑے اتار کے) ایک کپڑے میں لیٹیں۔ اور نہ دو عورتیں (کپڑے اتار کر) ایک کپڑے میں لیٹیں۔ (رواہ مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح عورت کا مرد سے پردہ ہے اسی طرح عورت کا عورت سے اور مرد کا مرد سے بھی پردہ ہے لیکن پردوں میں تفصیل ہے۔ ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے ختم تک کسی بھی مرد کو کسی مرد کے طرف دیکھنا حلال نہیں ہے۔ بہت سے لوگ آپس میں زیادہ دوستی ہوجانے پر پردہ کی جگہ ایک دوسرے کو بلا تکلیف دکھا دیتے ہیں یہ سراسر حرام ہے اسی طرح عورت کو عورت کے سامنے ناف سے لے کر گھٹنوں کے ختم تک کھولنا حرام ہے۔ مسئلہ : جنتی جگہ میں نظر کا پردہ ہے اتنی جگہ کو چھونا بھی درست نہیں ہے چاہے کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال کر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً کسی بھی مرد کو یہ جائز نہیں کسی مرد کے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کہ حصہ کو ہاتھ لگائے۔ اسی طرح کوئی عورت کسی عورت کے ناف کے نیچے کے حصہ کو گھٹنوں کے ختم تک ہاتھ نہیں لگا سکتی اسی وجہ سے حدیث بالا میں دو مردوں کو ایک کپڑے میں لیٹنے کی ممانعت فرمائی ہے اور یہی ممانعت عورتوں کے لیے بھی ہے یعنی دو عورتیں ایک کپڑے میں نہ لیٹیں۔ یہ جو کچھ بیان ہوا ضرورت اور مجبوری کے مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں، مجبوری صرف دو جگہ پیش آتی ہے۔ اول تو بچہ پیدا کرانے کے وقت اس میں بھی دائی جنائی لیڈی ڈاکٹر صرف بقدر ضرورت پردہ کی جگہ پر نظر ڈال سکتی ہے اور کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری مجبوری علاج کے مواقع میں پیش آتی ہے اس میں بھی الضرورۃ تقدر بقدر الضرورۃ کا لحاظ کرنا لازم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً جتنے بدن کا دیکھنا ضروری ہو۔ معالج اسی قدر دیکھ سکتا ہے۔ مثلاً اگر ران میں زخم ہو تو حکیم یا ڈاکٹر صرف اتنی جگہ دیکھ سکتا ہے جس کا دیکھنا ضروری ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ پرانا کپڑا پہن کر زخم کے اوپر کا حصہ کاٹ دیا جائے پھر اسے صرف معالج دیکھ لے جیسے مثلاً آپریشن کرنا ہے یا کو ل ہے میں کسی مجبوری سے انجکشن لگانا ہے تو صرف انجکشن لگانے کے لیے ذرا سی جگہ کھولی جائے جس کا طریقہ اوپر مذکور ہے اور جس جگہ کو علاج کی مجبوری سے ڈاکٹر یا حکیم کو دیکھنا جائز ہے دوسرے لوگوں کو دیکھنا جائز نہیں جو وہاں موجود ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دیکھنا بلا ضرورت ہے۔ اگر کسی حکیم کو ایسی عورت کے نبض دکھانی ہو جو حکیم کی محرم نہ ہو تو نبض کی جگہ پر انگلی رکھ سکتا ہے اس سے زیادہ مریضہ کے جسم کو ہاتھ نہ لگائے۔ ان باتوں کو خوب سمجھ لیا جائے۔ تذییل : اگر کوئی نا محرم عورت اپنے رشتہ دار یا غیر رشتہ دار سے پردہ نہ کرے تو نا محرم مردوں کو اس کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہوجاتا پردہ حکم شرعی ہے خود عورت سے یا اس کے شوہر کی اجازت سے یا کسی بھی شخص کے کہنے یا اجازت دینے سے محرموں کو اس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہوجاتا۔ اسی طرح ملازمت کے کام انجام دینے کی وجہ سے بےپردہ ہو کرنا محرموں کے سامنے آجانا گناہ ہے، لوگ مسلم خواتین کو بےحیاء نصرانی لیڈیوں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ایک مسلمان عورت کسی کافر عورت کی نقل کیوں اتارے ؟ ہمارا دین کامل ہے ہمیں اپنے دینی امور میں یا دنیاوی مسائل میں کافروں کی تقلید کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یاد رہے کہ جیسے نا محرم عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں ہے اسی طرح بےریش لڑکوں پر یا باریش نو جوانوں پر یا داڑھی منڈاے خوبصورت مردوں پر شہوت کی نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ شہوت کی نظر وہ ہے جس میں نفس اور نظر کو مزا آئے اور آج کل لڑکوں اور مردوں کی کسی ہوئی پتلون نے جو ننگا ہونے کے برابر ہے، بد نظری کے مواقع بہت زیادہ فراہم کردیئے ہیں۔ ہر مومن بد نظری سے بچے بد نظری گناہ بھی ہے اور اس سے دل کا ناس ہوجاتا ہے نماز اور ذکر تلاوت میں دل نہیں لگتا۔ اور اس کے بر خلاف نا جائزنظر پڑجانے پر نظر پھیر لینے سے ایسی عبادت کے نصیب ہونے کا وعدہ ہے جس کی حلاوت یعنی مٹھاس محسوس ہوگی۔ (رواہ احمد کمافی المشکوٰۃ 17) حضرت حسن سے (مرسلا) مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہے دیکھنے والے پر اور جس کی طرف دیکھا جائے اس پر بھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 370 از بیہقی فی شعب الایمان) یہ حدیث بہت سے جزئیات پر حاوی ہے جس پر بطور قاعدہ کلیہ ہر نظر حرام کو سبب لعنت بتایا ہے بلکہ اس پر بھی لعنت بھیجی ہے جو اپنی خوشی اور اختیار سے ایسی جگہ کھڑا ہوجائے جہاں دیکھنے والے ایسی نظر ڈال سکیں جو شریعت میں حلال نہ ہو، ننگوں کے جو کلب ہیں ان کے ممبر بننا ناچنے والی عورتوں کا اور ناچنے والے مردوں کا نظارہ کرنے والے سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اگر کوئی عورت بغیر پردہ کے بازار میں یا میلہ میں یا پارک میں چلی گئی جس کی وجہ سے غیر مردوں نے اسے دیکھ لیا تو وہ مرد اور عورت لعنت کے مستحق ہوئے اسی طرح کوئی عورت دروازہ سے یا کھڑکی سے یا برآمدہ سے باہر تکتی جھانکتی ہے تو یہ عورت بد نظری کی وجہ سے مستحق لعنت ہے اور غیر مردوں کو دیکھنے کا موقع دینے کی وجہ سے بھی لعنت کی مستحق ہوتی ہے اسی طرح شادی کے موقع پر سلامی کے لیے جب دولہا اندر گھر میں آیا اور نا محرم عورتوں کو دیکھنے کا موقع دیا تو یہ دولہا عورتوں کے درمیان بیٹھنے کی وجہ سے اور عورتیں اس کو دیکھنے کی وجہ سے لعنت کی مستحق ہوئیں، اسی طرح اگر کسی مرد نے کسی مرد کے سامنے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنوں کے ختم تک پورا حصہ یا کچھ حصہ کھول دیا تو دکھلانے والا اور دیکھنے والادونوں لعنت کے مستحق ہوئے۔ کسی عورت نے اپنے محرم یعنی باپ بھائی وغیرہ کے سامنے اپنا پیٹ یا پیٹھ یا ران یا گھٹنا کھول دیا تو دیکھنے والا اور دکھانے والی دونوں نے لعنت کا کام کرلیا۔ بہت سے مغربیت زدہ گھرانوں میں یہ آفت ہے کہ انگریز عورتوں کی دیکھا دیکھی صرف ایک فراک پہنے ہوئے گھروں میں رہتی ہیں اور پائجامہ یا ساڑھی کی جگہ ذرا سی لنگوٹی یا جان گیا پہنے رہتی ہیں جس کی وجہ سے رانیں اور گھٹنے گھر کے مردوں کے سامنے بلکہ نوکروں کے سامنے بھی (جن کو گھروں میں رکھنا حرام ہے) کھلے رہتے ہیں۔ اس طرز عمل سے گھر کے سب مرد و عورت لعنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
Top