Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 37
رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ١۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ
رِجَالٌ : وہ لوگ لَّا تُلْهِيْهِمْ : انہیں غافل نہیں کرتی تِجَارَةٌ : تجارت وَّلَا بَيْعٌ : اور نہ خریدو فروخت عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَاِقَامِ : اور قائم رکھنا الصَّلٰوةِ : نماز وَاِيْتَآءِ : اور ادا کرنا الزَّكٰوةِ : زکوۃ يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں يَوْمًا : اس دن سے تَتَقَلَّبُ : الٹ جائیں گے فِيْهِ : اس میں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) وَالْاَبْصَارُ : اور آنکھیں
جنہیں اللہ کی یاد سے، اور نماز پڑھنے سے، اور زکوٰۃ دینے سے، سودا گری اور خریدو فروخت کرنا غفلت میں نہیں ڈالتا، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی،
تجارت اور خریدو فروخت کے اوقات میں نمازوں کے اوقات آ ہی جاتے ہیں اس موقعہ پر خصوصاً عصر کے وقت میں جبکہ کہیں ہفت روزہ بازرا میں لگا ہوا ہو یا خوب چالو مارکیٹ میں بیٹھے ہوں اور گاہک پر گاہک آ رہے ہوں کارو بار چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھنا اور پھر مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ ادا کرنا تاجر کے لیے بڑے سخت امتحان کا وقت ہوتا ہے بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال کی محبت سے مغلوب نہ ہوں اور نماز کی محبت انہیں دکان سے اٹھا کر مسجد میں حاضر کر دے۔ (اِِقَام الصَّلٰوۃِ ) کے ساتھ (وَاِِیتَاء الزَّکَٰوۃِ ) بھی فرمایا ہے اس میں نیک تاجروں کی دوسری صفت بیان فرمائی اور وہ یہ کہ یہ لوگ تجارت تو کرتے ہیں جس سے مال حاصل ہوتا ہے اور عموماً یہ مال اتنا ہوتا ہے کہ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ مال کی محبت انہیں زکوٰۃ کی ادائیگی سے مانع نہیں ہوتی، جتنی بھی زکوٰۃ فرض ہوجائے حساب کر کے ہر سال اصول شریعت کے مطابق مصارف زکوٰۃ میں خرچ کردیتے ہیں۔ در حقیقت پوری طرح صحیح حساب کر کے زکوٰۃ ادا کرنا بہت اہم کام ہے جس میں اکثر پیسے والے فیل ہوجاتے ہیں بہت سے لوگ تو زکوٰۃ دیتے ہی نہیں اور بعض لوگ دیتے ہیں لیکن حساب کر کے پوری نہیں دیتے اور بہت سے لوگ اس وقت تک زکوٰۃ دیتے ہیں جب تک تھوڑا مال واجب ہو لیکن جب زیادہ مال کی زکوٰۃ فرض ہوجائے تو پوری زکوٰۃ دینے پر نفس کو آمادہ کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں ایک ہزار سے پچیس روپیہ نکال دیں چار ہزار سے سو روپیہ دے دیں۔ یہ نفس کو نہیں کھلتا لیکن جب لاکھوں ہوجاتے ہیں تو نفس سے مغلوب ہوجاتے ہیں اس وقت سوچتے ہیں کہ ارے اتنا زیادہ کیسے نکالوں ؟ مگر یہ نہیں سوچتے کہ جس ذات پاک نے یہ مال دیا ہے اسی نے زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے اور ہے بھی کتنا کم ؟ سو روپیہ پر ڈھائی روپیہ، جس نے حکم دیا وہ خالق اور مالک ہے اور اسے یہ بھی اختیار ہے کہ پورا ہی مال خرچ کردینے کا حکم فرما دے اور وہ چھیننے پر اور مال کو ہلاک کرنے پر بھی قادر ہے پھر زکوٰۃ ادا کرنے میں ثواب بھی ہے اور مال کی حفاظت بھی ہے یہ سب باتیں مومنین مخلصین کی ہی سمجھ میں آتی ہیں۔ (یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ) (یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہونگے) اوپر جن حضرات کی تعریف فرمائی کہ انہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے نہیں روکتی ان کا ایک اور وصف بیان فرمایا جس پر تمام اعمال صالحہ کا اور منکرات و محرمات کے چھوڑنے کا مدار ہے۔ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان ہے اور وہاں کے حساب کی پیشی کا یقین ہے وہ لوگ نیکیاں بھی اختیار کرتے ہیں گناہوں سے بھی بچتے ہیں انہیں اپنے اعمال پر غرور اور گھمنڈ نہیں ہوتا وہ اچھے سے اچھا عمل کرتے ہیں پھر بھی ڈرتے ہیں کہ ٹھیک طرح ادا ہوا یا نہیں عمل بھی کرتے ہیں اور آخرت کے مواخذہ اور محاسبہ سے بھی ڈرتے رہتے ہیں۔ قیامت کا دن بہت سخت ہوگا اس میں آنکھیں بھی چکرا جائیں گی اور ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہ ہونگے۔ سورة ابراہیم میں فرمایا (اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُْ سِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَ اَفْءِدَتُھُمْ ھَوَآءٌ) (اللہ انہیں اسی دن کے لیے مہلت دیتا ہے جس دن آنکھیں اوپر کو اٹھی ہوئی رہ جائیں گی جلدی جلدی چل رہے ہونگے اوپر کو سر ٹھائے ہونگے ان کی آنکھیں ان کی طرف واپس نہ لوٹیں گی اور ان کے دل ہوا ہونگے) جس نے اس دن کے مواخذہ اور محاسبہ کا خیال کیا اور وہاں کی پیشی کا مراقبہ کیا اور خوف کھاتا رہا اور ڈرتا رہا کہ وہاں میرا کیا بنے گا ایسا شخص دنیا میں فرائض واجبات بھی صحیح طریقے پر انجام دے گا اور گناہوں سے بھی بچے گا اور اسے آخرت کی فلاح اور کامیابی نصیب ہوگی۔ سورة مومنون میں جو فرمایا ہے (وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُھُمْ وَ جِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رَاجِعُوْنَ ) اس کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کیا ان ڈرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی بیٹی نہیں (اس سے یہ لوگ مراد نہیں) بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو روزے رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور حال ان کا یہ ہے کہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان سے ان کا عمل قبول نہ کیا جائے ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ ) (یہ وہ لوگ ہیں جو اچھے کاموں میں آگے بڑھتے ہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 457) در حقیقت آخرت کا فکر اور وہاں کا خوف گناہوں کے چھڑانے اور نیکیوں پر لگانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ فائدہ : مساجد کے بارے میں جو (فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ ) فرمایا ہے اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ترفع بمعنی تبنی ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ حضرت مجاہد تابعی کا قول ہے اور حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ ترفع بمعنی تعظم ہے کہ ان مساجد کی تعظیم کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یعنی ان کا ادب کیا جائے ان میں وہ کام اور وہ باتیں نہ کی جائیں جو مسجد کے بلند مقام کے خلاف ہیں۔ (ذکر البغوی القولین فی معالم التنزیل) مساجد کی تعمیر بھی مامور بہ ہے اور مبارک ہے جس کا بڑا اجر وثواب ہے اور ان کا ادب کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ مسجدوں کو پاک و صاف رکھنا ان میں برے اشعار نہ پڑھنا، بیع و شراء نہ کرنا اپنی گمشدہ چیز تلاش نہ کرنا۔ پیاز لہسن کھا کر یا کسی بھی طرح کی بدبو منہ میں یا جسم میں یا کپڑے میں لے کر آنے سے پرہیز کرنا ان میں دنیا والی باتیں نہ کرنا بہت چھوٹے بچوں کو ساتھ نہ لے جانا یہ سب چیزیں مسجد کی تعظیم میں داخل ہیں۔ مساجد کی اصل آبادی یہ ہے کہ اذانیں دے کر مسلمانوں کو نماز کے لیے بلایا جائے اور داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجد پڑھی جائے اور جماعت سے نمازیں پڑھی جائیں۔ اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے قرآن مجید کی تعلیم ہو دینی باتیں سکھائی اور پڑھائی جائیں ایک نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کیا جائے ان میں اعتکاف کیا جائے۔ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو مسجد ہی میں دل اٹکا رہے احادیث شریفہ میں ان امور کا اہتمام کرنے کا حکم فرمایا ہے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ مساجد کا دھیان رکھتا ہے تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دے دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اَنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) ۔ (رواہ الترمذی والدارمی کما فی المشکوٰۃ ص 69) فائدہ : آیت شریفہ میں جو لفظ (رِجَالٌ لاَ تُلْہِیہِمْ ) وارد ہوا ہے اس سے بعض حضرات نے یہ استنباط کیا ہے کہ رجال یعنی مرد مسجدوں میں آئیں ان میں نماز پڑھیں اور ذکر و تلاوت کریں اور درس میں مشغول ہوں یہ مردوں ہی کے لیے مناسب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو بعض شرطوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت تو دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ بُیُوْتُھُنَّ خَیْرٌ لَّھُنَّ اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ عورت کی نماز اس کے گھر یعنی اندر کے حصے میں اس نماز سے بہتر ہے جو صحن میں پڑھی اور خوب اندر کے کمرے میں نماز پڑھے یہ اس سے بہتر ہے کہ اپنے گھر کے ابتدائی حصہ میں نماز پڑھے۔ (رواھما ابو داؤد ص 84 ج 1)
Top