Anwar-ul-Bayan - Hud : 94
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (یقین کیا) بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاِذَا : اور جب كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں مَعَهٗ : اس کے ساتھ عَلٰٓي : پر۔ میں اَمْرٍ جَامِعٍ : جمع ہونے کا کام لَّمْ يَذْهَبُوْا : وہ نہیں جاتے حَتّٰى : جب تک يَسْتَاْذِنُوْهُ : وہ اس سے اجازت لیں اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ : اجازت مانگتے ہیں آپ سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر فَاِذَا : پس جب اسْتَاْذَنُوْكَ : وہ تم سے اجازت مانگیں لِبَعْضِ : کسی کے لیے شَاْنِهِمْ : اپنے کام فَاْذَنْ : تو اجازت دیدیں لِّمَنْ : جس کو شِئْتَ : آپ چاہیں مِنْهُمْ : ان میں سے وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَهُمُ اللّٰهَ : ان کے لیے اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ایمان والے وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب وہ رسول کے ساتھ کسی ایسے کام کے لیے جمع ہوتے ہیں جس کے لیے جمع کیا گیا تو اس وقت تک نہیں جاتے جب تک آپ سے اجازت نہ لیں، بلاشبہ جو لوگ آپ سے اجازت لیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں، سو جب وہ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت طلب کریں تو ان میں سے آپ جسے چاہیں اجازت دیدیں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجیے بلاشبہ اللہ غفور ہے رحیم ہے
اہل ایمان رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر جاتے ہیں درمنثور ص 60 ج 5 میں لکھا ہے کہ غزوہ احزاب (جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں) کے موقع پر قریش مکہ ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ منورہ کی آبادی کی قریب بئر رومہ کے پاس ٹھہر گئے اور قبیلہ بنی غطفان کے لوگ آئے تو یہ لوگ احد کی طرف آکر ٹھہر گئے۔ رسول اللہ ﷺ کو ان کی آمد کی خبر ہوگئی۔ اس موقعہ پر خندق پہلے ہی کھو دی جا چکی تھی۔ جس میں مسلمانوں نے خوب خوشی سے حصہ لیا۔ لیکن منافقین اول تو دیر میں آتے تھے اور جب آتے تھے تو تھوڑا بہت کام کردیتے تھے پھر جب جانا ہوتا تو رسول اللہ کے علم اور اجازت کے بغیر چپکے سے کھسک جاتے تھے اور مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی تھی تو رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر جاتے تھے پھر جب ضرورت پوری ہوجاتی تھی تو واپس آجاتے تھے۔ اللہ جل شانہٗ نے آیت بالا میں اہل ایمان کی توصیف فرمائی اور منافقین کی دنیا سازی اور بےوفائی کا تذکرہ فرمایا چونکہ منافقین کے دلوں میں ایمان ہی نہیں تھا دنیا سازی اور ریا کاری کے لیے اپنا مومن ہونا ظاہر کرتے تھے اس لیے اس سے ایسی چیزیں ظاہر ہوتی رہتی تھیں جو یہ بتا دیتی تھیں کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ یہ لوگ نماز بھی جھٹ پٹ پڑھتے تھے اور عشاء اور فجر کی نمازوں میں حاضر ہونے سے جان چراتے تھی جو نماز تھی وہ بھی ریا کاری کی نماز تھی، جہاد میں جاتے تھے تو وہاں بھی شرارت کرتے تھے جس کا ذکر سورة توبہ میں گزر چکا ہے جس کا ظاہر باطن ایک نہ ہو وہ کہاں تک ظاہر داری قائم رکھ سکتا ہے کہیں نہ کہیں جا کر یہ بات کھل ہی جاتی ہے کہ یہ دل سے مومن نہیں ہے۔ قال صاحب الروح والتسلل الخروج من البین علی التدریج والخفیۃ وقد للتحقیق و قولہ تعالیٰ لو اذا ای ملاوذۃ بان یستتر بعضھم ببعض حتی یخرج سورة توبہ میں بھی منافقین کی اس حرکت کو بیان فرمایا ہے (وَ اِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ھَلْ یَرٰیکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ ) (اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو منافقین آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ کسی نے دیکھا تو نہیں پھر چلے جاتے ہیں اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا اس سبب سے کہ وہ سمجھتے نہیں) ۔ حضرت امام ابو داؤد نے اپنی کتاب مراسیل میں لکھا ہے کہ جب حضرات صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کسی کو نکسیر پھوٹنے یا کسی ضرورت سے جانا ہوتا تو وہ آنحضرت ﷺ کی طرف انگوٹھے کی پاس والی انگلی سے اشارہ کردیتا تھا آپ بھی ہاتھ کے اشارہ سے اجازت دے دیتے تھے اور منافقین کا یہ حال تھا کہ خطبہ سننا اور مجلس میں بیٹھنا ان کے لیے بھاری کام تھا جب مسلمانوں میں سے کوئی شخص باہر جانے کے لیے آپ سے اجازت طلب کرتا تو منافق یہ کرتے تھے کہ اس مسلمان کی بغل کے پاس کھڑے ہو کر اسے آڑ بنا کر نکل جاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت کریمہ (قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ ) (آخر تک) نازل فرمائی شان نزول گو خاص ہو لیکن آیات کا مفہوم عام ہوتا ہے مسلمانوں کی تعریف بھی فرمائی اور اس کے ذیل میں یہ بھی فرما دیا اہل ایمان کا یہ طریقہ ہونا چاہیے کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی ضرورت یا کسی مشورہ کے لیے بلائیں تو حاضر ہوجائیں اور اللہ کے رسول ﷺ کے بلاوے کو ایسا نہ سمجھیں جیسا کہ آپس کے بلاوے کو سمجھتے ہیں (چاہے گئے چاہے نہ گئے) آپ کے بلانے پر فوراً آجائیں اور جب تک آپ مجلس بر خاست نہ کریں جم کر بیٹھے رہیں اگر مجلس کے درمیان سے جانا ہو تو آپ سے اجازت لے کر جائیں۔ منافقوں کی طرح چپکے سے نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ جب اہل ایمان آپ سے چلے جانے کی اجازت مانگیں تو آپ جسے چاہیں اجازت دے دیں ضروری نہیں کہ سبھوں کو اجازت دیں ممکن ہے کہ جس ضرورت کے پیش نظر اجازت مانگ رہے ہیں وہ واقعی ضروری نہ ہو یا ضروری تو ہو لیکن مجلس کو چھوڑ کر چلے جانے سے اس سے زیادہ کسی ضرر کا خطرہ ہو اس لیے اجازت دینا نہ دینا آنحضرت ﷺ پر چھوڑ دیا گیا۔ ساتھ ہی (وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ اللّٰہَ ) بھی فرمایا کہ آپ ان کے لیے استغفار بھی کریں۔ کیونکہ جس دینی ضرورت کے لیے جمع کیا گیا ہے اسے چھوڑ کر جانا اگرچہ عذر قوی ہی ہو اس میں اپنی ذاتی ضرورت کو دین پر مقدم رکھنے کی ایک صورت نکلتی ہے اس میں اگرچہ گناہ نہ ہو مگر کوتاہی کا شائبہ ضرور ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس عذر کو قوی سمجھ کر اجازت لی اسے قوی سمجھنے میں ہی خطاء اجہتادی ہوگئی ہو الہٰذا آپ اجازت دینے کے ساتھ ان کے لیے استغفار بھی کریں۔ (اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ) (بےشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے)
Top