Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ وہ اتناکہنے سے چھوڑدئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایانہ جائے گا۔
دعویٰ ایمان کے بعد امتحان بھی ہوتا ہے یہاں سے سورة عنکبوت شروع ہو رہی ہے، عربی زبان میں عنکبوت مکڑی کو کہا جاتا ہے اس سورة کے پانچویں رکوع میں عنکبوت یعنی مکڑی کا ذکر ہے اسی لیے یہ سورة اس نام سے مشہور ہے۔ آیت کے ابتدائی مضمون میں اول تو یوں فرمایا کہ جو لوگ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کیا انہوں نے یہ خیال کیا کہ صرف اتنا کہہ دینے سے چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کا امتحان نہ کیا جائے گا ؟ یہ استفہام انکاری ہے اور مطلب یہ ہے کہ صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ میں مومن ہوں کافی نہیں ہے، دل سے مومن ہونا لازم ہے اور جب کوئی سچا مومن ہوگا تو آزمائشوں میں ڈالا جائے گا، یہ آزمائشیں کئی طرح سے ہوں گی، عبادات میں مجاہدہ ہوگا، خواہشوں کے خلاف بھی چلنا ہوگا، مصائب پر صبر کرنا ہوگا، ان چیزوں کے ذریعہ مومن بندوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ جب امتحان ہوتا ہے اور مجاہدات اور مشقتیں سامنے آتی ہیں تو مخلص مومن اور منافق کے درمیان امتیاز ہوجاتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے (جلد 2 ص 134) بحوالہ ابن جریر وابن ابی حاتم حضرت شعبی ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ہجرت کے بعد مکرمہ میں ہوتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تھا، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ نے (جو ہجرت کرکے مدینہ منورہ آچکے تھے) ان لوگوں کو لکھا کہ جب تک ہجرت نہ کرو گے تمہارا اسلام لانا مقبول اور معتبر نہ ہوگا، اس پر وہ لوگ مدینہ منورہ کے ارادہ سے نکلے تو مشرکین ان کے پیچھے لگ گئے اور انہیں واپس لے گئے، اس پر آیت بالا نازل ہوئی، مہاجرین نے انہیں پھر لکھا کہ تمہارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اس پر انہوں نے پھر مکہ معظمہ سے نکلنے کا ارادہ کیا اور یہ طے کیا کہ اگر مشرکین آڑے آئے تو ہم ان سے جنگ کریں گے، چناچہ یہ لوگ ہجرت کے ارادہ سے نکلے اور مشرکین پھر ان کے پیچھے لگ گئے جس پر انہوں نے قتال کیا، بعض مقتول ہوگئے اور بعض نجات پاکر مدینہ منورہ پہنچ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة نحل کی یہ آیت نازل فرمائی (ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَ صَبَرُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (پھر بیشک آپ کا رب ایسے لوگوں کے لیے جنہوں نے فتنہ میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور قائم رہے تو آپ کا رب اس کے بعد بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے۔ ) اس کے بعد صاحب روح المعانی نے حضرت حسن بصری (رح) کا مقولہ نقل کیا ہے کہ یہاں الناس سے منافقین مراد ہیں۔
Top