Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور بلاشبہ ہمنے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا ہے سو اللہ ضرور ضرور ان لوگوں کو جان لے گا جو سچے ہیں اور ضرور ضرور جھوٹوں کو بھی جان لے گا۔
پھر فرمایا (وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) (اور ہم نے آزمایا ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھے) (فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا) (سو ضرور ضرور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جان لے گا جو اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں) (وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ) (اور ضرور ضرور ان لوگوں کو بھی جان لے گا جو جھوٹے ہیں) یعنی جو زبان سے ایمان کے مدعی ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ پہلے لوگوں کو آزمائش میں ڈالا گیا ان کو بھی تکلیفیں پہنچیں اور دشمنان اسلام سے واسطہ پڑا، مقتول ہوئے، زخم کھائے اور دوسری تکلیفوں میں مبتلا ہوئے، اب امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ) مخاطب ہے ان کا بھی امتحان لیا جائے گا۔ سورۂ آل عمران میں فرمایا (وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ ) (اور بہت سے نبی گزرے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی، پھر جو مصیبتیں ان کو اللہ کی راہ میں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ ہمت ہارے نہ کمزور پڑے اور نہ عاجز ہوئے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ) اہل ایمان کے ساتھ آزمائش کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، دعا امن و عافیت اور سلامتی کی ہی کرنی چاہیے، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آزمائش آجائے تو صبر و تحمل اور برداشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کو سامنے رکھتے ہوئے آزمائش کا وقت گزار دیں، تکلیفوں پر بھی اجر اور صبر پر بھی، صبر کا پھل میٹھا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ جو لوگ صدق دل سے مسلمان ہوتے ہیں وہ تکلیفوں اور آزمائشوں میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور جو لوگ دفع الوقتی کے طور پر دنیا سازی کے لیے اوپر اوپر سے اسلام کے مدعی ہوجاتے ہیں وہ آڑے وقت میں اسلام کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ مصائب اور مشکلات کے ذریعہ مخلص اور غیر مخلص کا امتیاز ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ کو مخلوق پیدا فرمانے سے پہلے ہی سب کچھ معلوم تھا کہ کون کیا کرے گا اور کیسا ہوگا، اسے پہلے ہی سے اس کا علم ہے، پھر جب اسی علم ازلی کے مطابق لوگوں کے اعمال اور احوال کا ظہور ہوجاتا ہے تو یہ علم بھی ہوجاتا ہے کہ علم ازلی کے مطابق جو واقعہ ہونے والا تھا وہ ہوچکا۔ مفسرین کرام اسے علم ظہوری سے تعبیر کرتے ہیں، یہ مسئلہ ذرا باریک سا ہے کسی اچھے عالم سے سمجھ لیں۔
Top