Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 28
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ
وَمَآ اَنْزَلْنَا : اور نہیں اتارا عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ جُنْدٍ : کوئی لشکر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم مُنْزِلِيْنَ : اتارنے والے
اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نازل نہیں کیا اور نہ ہم اتارنے والے تھے۔
اور (وَمَا کُنَّا مُنزِلِیْنَ ) کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بستی کے ہلاک کرنے کے لیے ہم فرشتوں کو اتارنے والے نہیں تھے کیونکہ ہمیشہ تعذیب اور ہلاکت کے لیے فرشتے نہیں آتے، اللہ تعالیٰ کبھی فرشتوں کو اتار دیتے ہیں جیسا کہ غزوۂ بدر میں فرشتے نازل کیے گئے اور کبھی نہیں اتارتے، مختلف طریقوں سے ہلاک کیا گیا۔ (قال صاحب روح (ج 33: ص 2) والظاھر انّ المراد بھذا الجند جند الملئکۃ ای ما انزلنا لاھلاکھم ملآء کَۃً مِّنَ السَّمَآءٍ وَمَا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ وما صح فی حکمتنا ان ننزّل الجند لاھلاکھم لما انا قدرنا لکل شیءٍ سبباً حیث اھلکنا بعض من اھلکنا من الامم بالحاصب وبعضھم بالصیحۃ وبعضھم بالخسف بعضھم بالاغراق وجعلنا انزال الجند من خصائصک فی الانتصار لک من قومک وکفینا امر ھؤلاء بصیحۃ ملک صاح بھم فھلکوا۔ یعنی ان ذلک الرجل خوطب بذلک) (صاحب تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ اس لشکر سے مراد فرشتوں کا لشکر ہے یعنی ہم نے ان کے ہلاک کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتارتے اور نہ ہی ہم فرشتے اتارنے والے تھے کہ ہماری حکمت میں ان کی ہلاکت کے لیے فرشتوں کا اتارنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ہم نے ہر چیز کے لیے سبب مقرر کیا ہے جیسا کہ بعض قوموں کو ہم نے پتھر برسا کر ہلاک کیا بعض کو چیخ سے بعض کو زمین میں دھنسا کر بعض کو پانی میں غرق کرکے ہلاک کیا فرشتے نہیں اتارے، لیکن اب یہ تیری قوم میں تیری مدد کے لیے فرشتوں کا اترنا تیری خصوصیات میں سے ہے۔ اور ہم نے ان کے لیے ایک فرشتہ کی چیخ کو کافی کردیا فرشتے نے چیخ ماری اور یہ سب ہلاک ہوگئے۔ یعنی اس آدمی سے خطاب کرکے یہ کہا گیا۔ )
Top