Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 46
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَمَا : اور نہیں تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس آتی مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی مِّنْ اٰيٰتِ : نشانیوں میں سے رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : روگردانی کرتے
اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو نشانی بھی ان کے پاس آتی ہے اس کی طرف سے اعراض کرنے والے بن جاتے ہیں۔
(وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ اِِلَّا کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ ) (اور ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی آتی ہے اس سے اعراض کرنے والے بن جاتے ہیں۔ ) یہ تو ان کا معاملہ عقیدہ توحید کے ساتھ ہوا جسے وہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آگے مالی انعامات ہوتے ہوئے جو کنجوسی اور ناشکری کرتے تھے اس کا تذکرہ فرمایا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کرو، تو خرچ کرنے کی بجائے شرارت سے اور مذاق اڑانے کی نیت سے کافروں نے یوں کہا کیا ہم ان لوگوں کو کھلائیں جو تمہارے ساتھ ایمان قبول کرچکے ہیں اللہ چاہے تو انہیں کھلا دے ان کا مطلب یہ تھا کہ تم کہتے ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے تو بس وہی انہیں رزق دیدے گا۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ تم جو ہمیں خرچ کرنے کو کہہ رہے ہو، یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ کفار بھی یہ بات مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے اور کھلانے والا ہے لیکن اس بات کو انہوں نے بطور طنز کے ذکر کیا اور مقصد ان کا یہ تھا کہ تم تو یوں کہتے ہو کہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے کھلا دے تو اپنے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ ہی سے مانگ لو اور انہیں کھلا دو ۔
Top