Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو۔
منکرین بعث کا قول اور ان کی تردید توحید کے دلائل اور منکرین کے اعراض کا بیان فرمانے کے بعد وقوع قیامت کے یقینی ہونے کا اور منکرین کے استبعاد کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) (اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو) یعنی تم جو یوں کہتے ہو کہ قیامت آئے گی ہمارے خیال میں یہ تمہاری باتیں ہی باتیں ہیں آتی ہوتی تو کب کی آچکی ہوتی، اس کے واقع ہونے کی جو تم خبر دے رہے ہو اگر تم اس خبر میں سچے ہو تو وقت طے کردو کہ قیامت فلاں وقت آئے گی، یہ بات کہنے سے ان کا مقصود وقوع قیامت کا انکار کرنا تھا، اس انکار کو انہوں نے استفہام انکاری کے پیرایہ میں بیان کیا، اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (مَا یَنظُرُوْنَ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُھُمْ وَھُمْ یَخِصِّمُوْنَ ) یہ لوگ جو قیامت کا انکار کر رہے ہیں ان کے انکار کرنے سے قیامت کا آنا رک نہیں جائے گا، بس یہ لوگ ایک چیخ کے انتظار میں ہیں جو انہیں پکڑ لے گی اور اس وقت یہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے اس وقت جو جہاں ہوگا وہیں دھرا رہ جائے گا اور وہیں مرجائے گا، اس وقت نہ کوئی وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ سکیں گے۔ (یہ نفخہ اولیٰ یعنی پہلی بار صور پھونکنے کے وقت ہوگا۔ )
Top