Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 71
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ
اَوَلَمْ يَرَوْا : یا کیا وہ نہیں دیکھتے ؟ اَنَّا خَلَقْنَا : ہم نے پیدا کیا لَهُمْ : ان کے لیے مِّمَّا : اس سے جو عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ : بنایا اپنے ہاتھوں (قدرت) سے اَنْعَامًا : چوپائے فَهُمْ : پس وہ لَهَا : ان کے مٰلِكُوْنَ : مالک ہیں
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے ان چیزوں میں سے جو ہمارے ہاتھوں نے پیدا کیں مویشی پیدا کیے ہیں سو وہ ان کے مالک ہیں۔
جانوروں میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، ان میں منافع اور مشارب ہیں ایمانیات کا تذکرہ فرمانے کے بعد بعض دنیاوی منافع کا تذکرہ فرمایا، ارشاد فرمایا کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہم نے ان کے لیے محض اپنی قدرت سے چو پائے پیدا کیے، یہ لوگ چوپایوں کے مالک ہیں، ہر چیز کا حقیقی مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے انسانوں کو بھی اس نے اپنی مخقول میں سے بعض چیزوں کا مالک بنا دیا ہے، بندے مجازی مالک ہیں اور مالک ہوتے ہوئے ان احکام کے پابند ہیں جو شریعت اسلامیہ کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں، جو شخص ان کی خلاف ورزی کرے گا گنہگار ہوگا، یوں نہ سمجھے کہ میں اس جانور کا مالک ہوں جو چاہوں کروں۔ جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قابو میں دے دیا ہے، کچھ جانور ایسے ہیں جو سواری کا کام دیتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو خوراک کے کام میں آتے ہیں ان کا گوشت کھایا جاتا ہے، جب کوئی جانور بدک جائے، یا چمک جائے، قابو سے باہر ہوجائے اس وقت انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسخیر سے یہ جانور ہمارے قابو میں ہے اگر بےقابو ہوجائے تو ہم اس سے کام نہیں لے سکتے۔ اسی لیے تو سواری کی دعا (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) تعلیم فرمائی۔ (سورۃ الزخرف رکوع نمبر 1)
Top