Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں مگر جو پہلے گزر چکا ہے بیشک یہ بےحیائی اور غصہ کا کام ہے اور برا راستہ ہے۔
والد کی بیوی سے نکاح کرنے کی حرمت اسباب نزول صفحہ 141 میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت حصن بن ابی قیس کے بارے میں نازل ہوئی جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرنا چاہا نیز اسود بن خلف اور صفوان بن امیہ نے اور بھی دو تین افراد کے نام لکھے ہیں جو باپ کی بیوی سے نکاح کرنے کے مرتکب ہوئے ابو قیس کی بیوی کو جب ابو قیس کے بیٹے نے نکاح کا پیغام دیا تو وہ کہنے لگی کہ میں تجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہوں تجھ سے کیسے نکاح کروں ؟ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کروں گی۔ چناچہ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں (اور بات سامنے رکھی) اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت نازل فرمائی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ مرنے والے باپ کی بیوی سے نکاح کرلیا کرتے تھے۔ ابتداء اسلام میں بعض ایسے واقعات پیش آئے۔ پھر ہمیشہ کے لیے باپ کی بیوی سے نکاح کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا، واضح رہے کہ جس کسی بھی عورت سے کسی شخص نے نکاح کرلیا صرف نکاح کرلینے سے ہی وہ عورت اس شخص کے بیٹوں پر حرام ہوگئی باپ کے ساتھ اس عورت کی خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان فرمایا کہ میرے ماموں ابو بردہ میرے پاس سے گزرے ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے کہا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ان کا سر کاٹ کر لاؤں۔ (مشکوٰۃ المصابیح 274)
Top