Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 27
وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ١۫ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يَّتُوْبَ : توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَيُرِيْدُ : اور چاہتے ہیں الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ : جو لوگ پیروی کرتے ہیں الشَّهَوٰتِ : خواہشات اَنْ : کہ تَمِيْلُوْا : پھر جاؤ مَيْلًا : پھرجانا عَظِيْمًا : بہت زیادہ
اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرمائے اور جو لوگ خواہشات نفسانیہ کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑی بھاری کجی میں پڑجاؤ
شہوت پرستوں کا طریق کار : جو لوگ شہوتوں کے بندے ہیں انہیں انسانیت محبوب و مرغوب ہی نہیں وہ تو انسان ہو کر پچھتا رہے ہیں اور نفس کے مزہ کے لیے محض حیوانیت پر اتر آئے ہیں۔ یورپ، امریکہ میں بےہودگی، فحاشی، زنا کاری کا جو سیلاب آیا ہوا ہے، چھوٹے بڑے حاکم و محکوم اور ہر طبقہ کے لوگ اس میں بہہ چکے ہیں، حکومتوں کا یہ حال ہے کہ کوئی قانون بناتے ہیں پھر جب دیکھتے ہیں کہ عوام اس کے مطابق نہیں چلتے تو قانون کو بدل دیتے ہیں۔ تھوڑا بہت جو قانون کا بھرم باقی ہے تو صرف اتنا سا ہے کہ زنا بالجبر ممنوع ہے۔ آپس کی خوشی سے زنا کاری جتنی مرتبہ بھی ہوجائے اس پر ان کے نزدیک کوئی مواخذہ نہیں، اور اب استلذاذ بالمثل کا قانون پاس کردیا ہے ان شہوت پرستوں کے نزدیک عورت عورت سے اور مرد مرد سے استمتاع کرسکتا ہے، اور خلاف فطرت قضائے شہوت میں ان کے بڑے لوگ بھی مبتلا ہیں (دینی بڑے ہوں یا دیناوی ذمہ دار ہوں) ایسے پارک ہیں جن میں کسی عمل پر کوئی پابندی نہیں، اس پارک میں اعلانیہ طور پر مرد اور عورت جو فعل کرے ان کے یہاں اس پر قانون کی کوئی گرفت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو (وَیَاْکُلُوْنَ وَ یَتَمَتَّعُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَہُمْ ) فرمایا ہے کہ اس کے پورے پورے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں بھی بہت سے لوگ یورپ اور امریکہ کے حیوانوں کی طرح جنسی خواہشات پورا کرنے کے متوالے ہیں، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود بےحیائیوں فحاشیوں اور زنا کاریوں میں مبتلا ہیں بلکہ باقاعدہ ان کی سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں جن کی برابر اور مستقل یہ کوشش ہے کہ نکاح اور حیا و شرم کو بالائے طاق رکھ دیا جائے ایسے جرائد ہفت روزہ اور ماہنامے جاری ہیں جن میں بےحیائی کے کاموں کو اچھالا جاتا ہے ننگی تصویریں شائع کی جاتی ہیں جذبات نفسانیہ کو ابھارا جاتا ہے اور ایسی انجمنیں بنی ہوئی ہیں جو عامۃ المسلمین کو بےحیائی اور زنا کاری کے غار میں دھکیلنے کی پوری کوشش کر رہی ہیں، ننگوں کے کلب ہیں زنا کاری کے اڈے ہیں ان کی سر پرستی کی جاتی ہے، فاحشہ عورتوں کو حکومتیں لائسنس دیتی ہیں، پہلے تو اتنا ہی تھا کہ سینما ہال میں معاشقہ کے نظارے کیے جاتے تھے اور ننگی سے ننگی اور گندی سے گندی فلمیں بنوا کرسینماؤں کے مالکان خوش ہوتے تھے (کیونکہ اس میں ذریعہ آمدنی بہت زیادہ ہے) اور اب تو گھر گھر عشقیہ فلمیں اور ڈرامے دیکھے جا رہے ہیں، ٹیوی پروگراموں نے اور وی سی آر (ویڈیو کیسٹ ریکارڈر) نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب کے جذبات میں تلاطلم پیدا کردیا ہے، بےحیا ماں باپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور بچوں کو دکھاتے ہیں جن حکومتوں کے سر براہوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری اسلامی حکومت ہے ان کے ٹی۔ وی پروگراموں اور یورپ امریکہ کے پروگراموں میں کوئی فرق نہیں، وی سی آر بازاروں میں فروخت ہو رہے ہیں، دینداری کے دعوایدار بھی اپنے بچوں کو اس سے منع نہیں کرتے۔ پورا معاشرہ عریانی و فحاشی کی راہ سے گزر رہا ہے۔ پرانے قسم کے جو کچھ لوگ باقی ہیں وہ نئی نسل کے نو جوانوں کو کھلتے ہیں اور قرآن و حدیث کی عفت و عصمت کی تعلیم نو جوانوں کو پسند نہیں ہے بےحیائی کے داعیوں نے عامۃ الناس کو اس سطح پر لا کر کھڑا کردیا ہے کہ پیچھے مڑنے اور حیا و شرم اختیار کرنے کے لیے بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ زمانوں میں کوئی شخص زنا کرتا تو چھپ کر کرتا تھا اور اس طرح کا پیشہ کرنے والی عورتوں کو بھی بری نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ معاشرہ میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی لیکن آج تو عفت و عصمت حیا و شرم عیب بن گئی ہے اور بےحیائی اور فحاشی و عریانی ہنر اور کمال سمجھی جا رہی ہے اور اسے معاشرہ کا جزو اعظم سمجھا جاتا ہے۔ حیاء و شرم انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اخلاق عالیہ میں سے ہیں : عفت و عصمت اور حیاء وشرم کی تمام انبیاء کرام نے اپنی اپنی امتوں کو تعلیم دی ہے اور یہ اہل ایمان کا شعار ہے، حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں حضرات انبیاء (علیہ السلام) کے طریقہ زندگی میں سے ہیں۔ (1) حیا (2) تعطر (یعنی خوشبو لگانا) (3) مسواک کرنا (4) نکاح کرنا۔ (رواہ الترمذی فی اول کتاب النکاح) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر دین کا ایک خاص مزاج ہے اور دین اسلام کا مزاج حیاء ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 432) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہیں جب ان میں سے ایک چھین لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 432) آنحضرت ﷺ نے سچ فرمایا (نظروں کے سامنے ہے کہ) جن قوموں میں حیاء نہیں ان میں ایمان نہیں اور جو قومیں مسلمان ہونے کی دعویدار ہیں ان میں جیسے جیسے بےحیائی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ایمان اور ایمانیات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، یورپ اور امریکہ میں جو مسلمان جاکر بسے ہیں ان میں جو تھوڑا بہت ایمان و اسلام تھا وہ ان کی نسلوں میں وہاں برباد ہو رہا ہے، شریعت اسلامیہ نے عفت و عصمت کے لیے جو قانون بنائے اور ان کی حفاظت کے لیے جو پابندیاں رکھی ہیں ان میں پہلی پابندی نظر پر ہے اور بدنظری کو حرام قرار دیا ہے، نیز عورتوں کے لیے پردہ لازمی قرار دیا ہے۔ عورتوں کو گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے جو کوئی عورت خوشبو لگا کر باہر نکلے اسے زنا کار قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس پر نظریں ڈالنے لگتا ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 269) تعجب ان لوگوں پر ہے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور ساتھ ہی بےحیاء بھی ہیں اور عفت و عصمت کے دشمن بھی ہیں جو لوگ عفت و عصمت کے دشمن ہیں عام مسلمانوں کو بڑی حدتک بےحیائی پر ڈال چکے ہیں ان کی کوششیں جاری ہیں کہ مسلمان بالکل ہی عفت و عصمت اور حیاء و شرم سے ہاتھ دھو بیٹھیں ولقد صدق اللہ تعالیٰ (وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّھَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا) اللہ تعالیٰ کی بات نہ ماننا اور دشمنوں کی راہ اختیار کرنا یہ کیسی مسلمانی ہے ؟ فاللہ یھدیھم ویوفقھم لما یحب ویرضی
Top