Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
جن چیزوں سے تمہیں منع کیا جاتا ہے، اگر ان میں سے بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمہارے گناہوں کا کفارہ کردیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ میں داخل کریں گے۔
تکفیر سیئات کا وعدہ اس آیت میں کبائر سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے اور صغائر کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، اور بتایا ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرما دیں گے، دیگر نصوص کثیرہ کی بنا پر بعض علماء نے یہ اشکال کیا ہے کہ محض اجتناب کبائر سے (جن میں عدم ادائے فرائض بھی داخل ہے) اگر صغیرہ گناہ معاف ہوجائیں تو جتنے بھی صغائر ہیں بظاہر نتیجہ کے طور پر مباح کا درجہ لے لیں گے کیونکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کو یہ یقین رہے گا کہ کبائر سے بچنے کی وجہ سے میرے تمام صغائر معاف ہیں، لہٰذا صغائر پر کوئی عتاب اور عذاب نہ ہوگا اور مباح ہونے کا یہی معنی ہے۔ اس اشکال کو رفع کرنے کے لیے معتزلہ کی تردید کے ذیل میں صاحب مدارک التنزیل صفحہ 222: ج 2 میں تحریر فرماتے ہیں۔ وتثبت المعتزلۃ بالایۃ علی ان الصغائر واجبۃ المغفرۃ باجتناب الکبائر وعلی ان الکبائر غیر مغفورۃ باطل کان الکبائر والصغائرفی مشیۃ اللہ تعالیٰ سواء ان شاء عذب علیھما وان شاء عفا عنھما لقولۃ تعالیٰ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء فقدوعد المغفرۃ لمادون الشرک وقرنھا بمشیتہ تعالیٰ وقولہ ان الحسنات یذھبن السیئات فھذہ الایۃ تدل علی ان الصغائر والکبائر یجوز ان یذھبا بالحسنات لان لفظ السیات یطلق علیھا۔ مطلب یہ ہے کہ وعدہ مغفرت تو ہے لیکن مشیت الٰہی پر موقوف ہے وہ جس گناہ کو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اور بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے کہ یہاں کبائر ماتنھون عنہ سے وجوہ کفر مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام وجوہ کفر سے اجتناب کرو گے یعنی مسلمان رہوگے تو تمہارے سب گناہ معاف کرنے کا وعدہ ہے، کفر کے علاوہ جو باقی گناہ ہیں وہ چونکہ کفر کے مقابلہ میں صغائر ہیں (اگرچہ فی نفسہ ان میں بھی فرق مراتب ہے ان میں صغیرہ بھی ہیں اور کبیرہ بھی) ان کے معاف فرمانے کا وعدہ فرمایا، لیکن یہ وعدہ تحت المشیۃ ہے اور اس آیت کا مفہوم اور آیت کریمہ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ) کا ایک ہی مفہوم ہے۔ علامہ نسفی (رح) فرماتے ہیں وقیل المراد بھا انواع الکفر بدلیل قراءۃ عبداللہ کبیر ماتنھون عنہ وھو الکفر علامہ قرطبی (رح) نے بھی یہ بات کہی ہے اور جمع والی قرأت (کبائر ماتنھون عنہ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے اجناس کفرمراد ہیں پھر فرماتے ہیں : والایۃ التی قیدت الحکم فترد الیھا ھذہ المطلقات کلھاقولہ تعالیٰ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء۔ (صفحہ 195: ج 3) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ و رمضان الی رمضان مکفرات لما بینھن اذا اجتنبت الکبائر (یعنی پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیانی وقفہ کے گناہوں کا کفارہ کرنے والے ہیں جبکہ بڑے گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ (صحیح مسلم صفحہ 221: ج 1) اور صحیح مسلم صفحہ 121: ج 1 کی ایک حدیث مرفوع میں یوں ہے کہ مامن امرءٍ مسلم تحضرہ صلوٰۃ مکتوبۃ فیحسن وضوء ھا وخشو عھا ورکو عھا الا کانت کفارۃ لما قبلھا من الذنوب مالم یوت کبیرۃ (یعنی جس مسلمان کی موجودگی میں فرض نماز کا وقت ہوگیا اور اس نے اچھی طرح وضو کیا اور اس کا رکوع سجود بھی اچھی طرح ادا کیا تو اس سے اس کے پیچھے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، جب تک کہ کبیرہ گناہوں کا رتکاب نہ ہو۔ ان حدیثوں میں بظاہر وہی بات ہے کہ جب بڑے گناہوں سے پرہیز کیا جائے گا تو نیکیوں سے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، لیکن علامہ نووی شرع مسلم میں لکھتے ہیں : معناہ ان الذنوب کلھا تغفر الا الکبائر فانھا لاتغفر ولیس المراد ان الذنوب تغفر مالم تکن کبیرۃ فان کانت لا یغفرشئی من الصغائر فان ھذا وان کان محتملا فسیاق الحدیث یاباہ قال القاضی عیاض ھذا المذ کور فی الحدیث من غفران الذنوب مالم یوت کبیرۃ ھو مذھب اھل السنۃ وان الکبائر انما یغفر ھا التوبۃ ورحمۃ اللہ تعالیٰ وفضلہ واللہ اعلم۔ (شرح صحیح مسلم صفحہ 121: ج 1) مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے ذریعہ جو گناہ معاف ہونے کا وعدہ ہے یہ صغیرہ گناہوں سے متعلق ہے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہ ہوں گے، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ بڑے گناہ نہ ہوں تو چھوٹے گناہ معاف ہوں گے، ظاہری الفاظ میں اس معنی کا احتمال تو ہے لیکن حدیث کا سیاق اس سے انکار کرتا ہے، قاضی عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ یہ جو حدیث میں گناہوں کی مغفرت کا ذکر ہوا کہ جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ ہو صغائر معاف کردیئے جائیں گے یہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے، اور کبائر صرف توبہ سے یا اللہ کی رحمت و فضل سے معاف ہوں گے، بظاہر آیت شریفہ (اِنْ تَحْتَنِبُوْا کَبَآءِرَ مَا تُنْھَوْنَ ) اور حدیث اذا اجتنبت الکبائر اور مالم یوت کبیرۃ سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ بڑے گناہوں کے ہوتے ہوئے چھوٹے گناہوں کا کفارہ نہ ہوگا، لیکن علامہ نووی فرماتے ہیں کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں اگرچہ محتمل ہے، امام نووی نے جو بات فرمائی ہے اور جو بات قاضی عیاضی سے نقل کی ہے اور جو کچھ علامہ نسفی نے لکھی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے آیت اور حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم چاہیں گے تو تمہارے سارے گناہوں کا کفارہ کردیں گے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ ہو (کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہ ہوگا کیونکہ ان کی مغفرت اور کفارہ کے لیے توبہ شرط ہے) ۔ امام نووی (رح) کی بات ان نصوص کی وجہ سے دل کو لگتی ہے جن میں اعمال صالحہ کے ذریعہ گناہوں کے کفارہ کا تذکرہ ہے اور اس میں کبیرہ گناہوں سے بچنے کی کوئی قید یا شرط نہیں سورة ہود میں فرمایا ہے (اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیّاٰتِ ) (کہ بلاشبہ نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے واقعہ کی خبر دی تو اللہ تعالیٰ نے آیت (وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ) نازل فرمائی اس شخص نے عرض کیا کہ یہ بشارت میرے ہی لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میری امت کے تمام افراد کے لیے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 58: ج 1) آیت بالا کے الفاظ میں جو عموم ہے اس سے بھی یہ معلوم ہو رہا ہے کہ نیکیوں کے ذریعہ گناہ معاہوتے ہیں اور بیشمار احادیث میں ان نیکیوں کا ذکر ہے جن کے ذریعہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، جن کا شمار کرنا مشکل ہے۔ لفظ (اِنْ تَجْتَنِبُوْا) سے شرط معلوم ہو رہی ہے اس کے بارے میں جو اکابر نے فرمایا ہے وہ ہم نے لکھ دیا ہے، بعض حضرات نے اور بھی توجیہات کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آیت کا تعلق گزشتہ آیت سے ہے، گزشتہ آیت میں یہ فرمایا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل ذریعہ سے مت کھاؤ اب یہاں یہ بات فرمائی کہ باطل مال لینے کے لیے کوئی شخص چلا جس کا ارادہ مثلاً غصب کرنے یا چوری کرنے کا تھا پھر وہ غصب یا چوری کرنے سے پہلے ہی گناہ کے ارادہ سے باز آگیا تو ارتکاب کبیرہ کے لیے جو وہ اپنے گھر سے روانہ ہوا یہ روانگی اور وہ سب گناہ معاف ہوگئے جو غصب یا چوری کے ارتکاب کے لیے کیے تھے جب اس نے چوری اور غصب کو اللہ کے خوف سے چھوڑ دیا تو اس سلسلہ میں جو عمل کیے تھے وہ بھی معاف ہوگئے۔ اور بعض حضرات نے یوں فرمایا کہ (اِنْ تَحْتَنِبُوْا) میں مفہوم شرط معتبر نہیں یعنی کبائر سے اجتناب کرنے کی وجہ سے تو صغیرہ گناہ معاف ہوں گے لیکن عدم اجتناب کبائر سے صغیرہ معاف نہ ہوں اس پر اس کی دلالت نہیں ہے۔ کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟ کبیرہ گناہ کون سے ہیں اس کے بارے میں حافظ شمس الدین ذہبی ؓ نے کتاب الکبائر کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ان کی تعیین میں حضرات علماء کے مختلف اقوال ہیں ایک یہ ہے کہ کبیرہ گناہ سات ہیں جنہیں بخاری و مسلم کی حدیث اجتنبوا السبع الموبقات میں بیان فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ کبیرہ گناہ ستر کے قریب ہیں، پھر فرمایا ہے کہ جس حدیث میں سات گناہوں کا ذکر ہے اس میں حصر مقصود نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرما دیا ہے، نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو کبیرہ گناہ ہیں ان میں خود فرق مراتب ہے، بعض بعض سے بڑے ہیں۔ علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں صفحہ 159: ج 3 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر دوزخ کے داخلے کی یا اللہ کے غصے کی یا لعنت کی یا عذاب کی وعید آئی ہو، نیز حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ کبیرہ گناہ سات سو کے قریب ہیں، ساتھ ہی ان کا یہ مقولہ بھی نقل کیا ہے لا کبیرۃ مع استغفار ولا صغیرۃ مع اصرار یعنی جب استغفار ہوتا رہے تو کبیرہ کبیرہ نہیں رہتا۔ (بشرطیکہ استغفار سچے دل سے ہو، زبانی جمع خرچ نہ ہو) اور صغیرہ پر اصرار ہوتا رہے تو پھر وہ صغیرہ نہیں رہتا۔ پھر لکھتے ہیں : وقد اختلف الناس فی تعدادھا وحصرھا اختلاف الآثار فیھا، و الذی انزل انہ قد جاءت فیھا احادیث کثیرۃ صحاح و حسان لم یقصد بہ الحصر و لکنھا بعضھا اکبر من بعض الی ما یکثر ضررہ و الی آخر ماقال۔ حافظ ذہبی ؓ نے اپنی کتاب میں ستر گناہ لکھے ہیں اور ان کے بارے میں جو وعیدیں ہیں وہ بھی درج کی ہیں۔ ان کی کتاب کا مراجعہ کرلیا جائے۔ کبیرہ گناہوں کی فہرست : اجمالی طور پر ہم حافظ ذہبی کی کتاب سے کبیرہ گناہوں کی فہرست لکھتے ہیں : (1) شرک اور شرک کے علاوہ وہ عقائد و اعمال جن سے کفر لازم آتا ہے (کفر و شرک کی مغفرت کبھی نہ ہوگی۔ کما جاء مصرحاً فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ ) (2) کسی جان کا عمداً قتل کرنا۔ (3) جادو کرنا۔ (4) فرض نماز کو چھوڑنا یا وقت سے پہلے پڑھنا۔ (5) زکوٰۃ نہ دینا۔ (6) بلا رخصت شرعی رمضان شریف کا کوئی روزہ چھوڑنا یا رمضان کا روزہ رکھ کر بلا عذر توڑ دینا۔ (7) فرض ہوتے ہوئے حج کیے بغیر مرجانا۔ (8) والدین کو تکلیف دینا اور ان امور میں ان کی نافرمانی کرنا جن میں فرمانبرداری واجب ہے۔ (9) رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا۔ (10) زنا کرنا۔ (11) غیر فطری طریقے پر عورت سے جماع کرنا یا کسی مرد یا لڑکے سے اغلام کرنا۔ (12) سود کا لین دین کرنا یا سود کا کاتب یا شاہد بننا۔ (13) ظلماً یتیم کا مال کھانا۔ (14) اللہ پر یا اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولنا۔ (15) میدان جہاد سے بھاگنا۔ (16) جو اقتدار اعلیٰ پر ہو اس کا رعیت کو دھوکہ دینا اور خیانت کرنا۔ (17) تکبر کرنا۔ (18) جھوٹی گواہی دینا یا کسی کا حق مارا جا رہا ہو تو جانتے ہوئے گواہی نہ دینا۔ (19) شراب پینا یا کوئی نشہ والی چیز کھانا پینا۔ (20) جوا کھیلنا۔ (21) کسی پاکدامن عورت کو تہمت لگانا۔ (22) مال غنیمت میں خیانت کرنا۔ (23) چوری کرنا۔ (24) ڈاکہ مارنا۔ (25) جھوٹی قسم کھانا۔ (26) کسی بھی طرح سے ظلم کرنا۔ ( مار پیٹ کر ہو یا ظلماً مال لینے سے ہو یا گالی گلوچ کرنے سے ہو) (27) ٹیکس وصول کرنا۔ (28) حرام مال کھانا یا پینا یا پہننا یا خرچ کرنا۔ (29) خود کشی کرنا یا اپنا کوئی عضو کاٹ دینا۔ (30) جھوٹ بولنا۔ (31) قانون شرعی کے خلاف فیصلے کرنا۔ (32) رشوت لینا۔ (33) عورتوں کا مردوں کی یا مردوں کا عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا ( جس میں ڈاڑھی مونڈنا بھی شامل ہے) (34) اپنے اہل و عیال میں فحش کام یا بےحیائی ہوتے ہوئے دور کرنے کی فکر نہ کرنا۔ (35) تین طلاق دی ہوئی عورت کے پرانے شوہر کا حلالہ کروانا اور اس کے لیے حلالہ کر کے دینا (36) بدن میں یا کپڑوں میں پیشاب لگنے سے پرہیز نہ کرنا۔ (37) دکھاوے کے لیے اعمال کرنا۔ (38) کسب دنیا کے لیے علم دین حاصل کرنا اور علم دین کو چھپانا۔ (39) خیانت کرنا۔ (40) کسی کے ساتھ حسن سلوک کر کے احسان جتانا۔ (41) تقدیر کو جھٹلانا۔ (42) لوگوں کے خفیہ حالات کی ٹوہ لگانا، تجس کرنا اور کنسوئی لینا۔ (43) چغلی کھانا۔ (44) لعنت بکنا۔ (45) دھوکہ دینا اور جو عہد کیا ہو اس کو پورا نہ کرنا۔ (46) کاہن اور منجم (غیب کی خبریں بتانے والے) کی تصدیق کرنا۔ (47) شوہر کی نافرمانی کرنا۔ (48) تصویر بنانا یا گھر میں لٹکانا۔ (49) کسی کی موت پر نوحہ کرنا۔ منہ پیٹنا، کپڑے پھاڑنا۔ سر منڈانا ہلاکت کی دعا کرنا۔ (50) سر کشی کرنا، اللہ کا باغی ہونا، مسلمان کو تکلیف دینا۔ (51) مخلوق پر دست درازی کرنا۔ (52) پڑوسی کو تکلیف دینا۔ (53) مسلمانوں کو تکلیف دینا اور ان کو برا کہنا۔ (54) خاص کر اللہ کے نیک بندوں کو تکلیف دینا۔ (55) ٹخنوں پر یا اس سے نیچے کوئی کپڑا پہنا ہوا لٹکانا۔ (56) مردوں کا ریشم اور سونا پہننا۔ (57) غلام کا آقا سے بھاگ جانا۔ (58) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا۔ (59) جانتے بوجھتے ہوئے اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو باپ بنا لینا۔ یعنی یہ دعویٰ کرنا کہ فلاں میرا باپ ہے۔ حالانکہ وہ اس کا باپ نہیں۔ (60) فساد کے طور پر لڑائی جھگڑا کرنا۔ (61) (بوقت حاجت) بچا ہوا پانی دوسروں کو نہ دینا۔ (62) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (63) اللہ کی گرفت سے بےخوف ہوجانا۔ (64) اولیاء اللہ کو تکلیف دینا۔ (65) نماز با جماعت کا اہتمام نہ کرنا۔ (66) بغیر شرعی عذر نماز جمعہ چھوڑ دینا۔ (67) ایسی وصیت کرنا جس سے کسی وارث کو ضرر پہنچانا مقصود ہو۔ (68) مکر کرنا اور دھوکہ دینا۔ (69) مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی ٹوہ لگانا اور ان کی پوشیدہ چیزوں پر دلالت کرنا۔ (70) کسی صحابی کو گالی دینا۔ یہاں تک حافظ ذہبی ؓ کی کتاب سے اقتباس ہوا، ہم نے ترتیب سے نمبر ڈالے ہیں، بعض چیزیں مکرر بھی آگئیں ہیں اور بعض مشہور چیزیں ان سے رہ گئی ہیں۔ اور ان کی کتاب کے بعض نسخوں میں بعض چیزیں زائد ہیں ( جو ذیل میں درج شدہ فہرس میں آگئی ہیں) ، صغائر و کبائر کے بیان میں علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی صاحب بحر الرائق (رح) کا بھی ایک رسالہ ہے جو الاشباہ و النظائر کے آخر میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کبیرہ گناہوں کی فہرست دی ہے جو حافظ ذہبی کی فہرست سے زیادہ ہے مثلاً ۔ (71) کسی ظالم کا مددگار بننا، قدرت ہوتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنا۔ (72) جادو کا سیکھنا اور سکھانا یا اس پر عمل کرنا۔ (73) قرآن کو بھول جانا۔ (74) کسی حیوان کو زندہ جلانا۔ (75) اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجانا۔ (76) مردار یا خنزیر بغیر اضطرار کے کھانا۔ (77) صغیرہ گناہ پر اصرار کرنا۔ (78) گناہوں پر مدد کرنا اور ان پر آمادہ کرنا۔ (79) گانے کا پیشہ اختیار کرنا۔ (80) لوگوں کے سامنے ننگا ہونا۔ (81) ناچنا (82) دنیا سے محبت کرنا۔ (83) حاملین قرآن اور علماء کرام کے حق میں بد گوئی کرنا۔ (84) اپنے امیر کے ساتھ غدر کرنا۔ (85) کسی کے نسب میں طعن کرنا۔ (86) گمراہی کی طرف دعوت دینا۔ (87) اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا۔ (88) اپنے غلام کو خصی کرنا یا اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو کاٹ دینا۔ (89) کسی محسن کی ناشکری کرنا۔ (90) حرم میں الحاد کرنا۔ (91) نرد سے کھیلنا، ہر وہ کھیل کھیلنا جس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔ (92) بھنگ پینا (ہیروئن اسی کے حکم میں ہے) (93) کسی مسلمان کو کافر کہنا۔ (94) بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنا۔ (95) مشت زنی کرنا۔ (96) حالت حیض میں جماع کرنا۔ (97) مسلمانوں کے ملک میں مہنگائی ہوجائے تو خوش ہونا۔ (98) جانور کے ساتھ بد فعلی کرنا۔ (99) عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔ (100) کھانے کو عیب لگانا۔ (101) بےریش حسین لڑکے کی طرف دیکھنا۔ (102) کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالنا اور بلا اجازت اندر چلے جانا۔ علامہ ابن نجیم کی فہرست متعلقہ کبائر ختم ہوئی۔ ہم نے مکر رات کو ختم کردیا یعنی حافظ ذہبی کے رسالہ میں جو چیزیں آئی تھیں ان کو نہیں لیا۔ اور بعض دیگر چیزوں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ صغیرہ گناہوں کی فہرست : اس کے بعد حافظ ابن نجیم نے صغائر کی فہرست دی ہے، جو یہ ہے : (1) جہاں نظر ڈالنا حرام ہو وہاں دیکھنا۔ (2) بیوی کے سوا کسی کا شہوت سے بوسہ لینا بیوی کے سوا کسی کو شہوت سے چھونا۔ (3) اجنبیہ کے ساتھ خلوت میں رہنا۔ (4) سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا۔ (5) کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا یعنی سلام کلام بند رکھنا۔ (6) کسی نمازی کا نماز پڑھتے ہوئے اپنے اختیار سے ہنسنا۔ (7) کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔ (8) مصیبت پر نوحہ کرنا اور منہ پیٹنا (یا گریبان پھاڑنا اور جاہلیت کی دہائی دینا) ۔ (9) مرد کا ریشم کا کپڑا پہننا۔ (10) تکبری چال چلنا۔ (11) فاسق کے ساتھ بیٹھنا۔ (12) مکروہ وقت میں نماز پڑھنا۔ (13) مسجد میں نجاست داخل کرنا یا دیوانے کو یا بچے کو مسجد میں لے جانا جس کے جسم یا کپڑے پر نجاست ہونے کا غالب گمان ہو۔ (14) پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پشت کرنا۔ (15) تنہائی میں بطور عبث شرم گاہ کو کھولنا۔ (16) لگا تار نفلی روزے رکھنا جس کے بیچ میں افطار نہ ہو۔ (17) جس عورت سے ظہار کیا ہو کفارہ دینے سے پہلے اس سے وطی کرنا۔ (18) کسی عورت کا بغیر شوہر اور محرم کے سفر کرنا۔ (19) کسی دوسرے خریدار سے زیادہ قیمت دلوانے کے لیے مال کے دام زیادہ لگا دینا جبکہ خود خریداری کا ارادہ نہ ہو۔ (20) ضرورت کے وقت مہنگائی کے انتظار میں غلہ روکنا۔ (21) کسی مسلمان بھائی کی بیع پر بیع کرنا یا کسی کی منگنی پر منگنی کرنا۔ (22) باہر سے مال لانے والوں سے شہر سے باہر ہی سودا کرلینا (تا کہ سارا مال اپنا ہوجائے اور پھر دام چڑھا کر بیچیں) (23) جو لوگ دیہات سے مال لائیں ان کا مال اپنے قبضہ میں کر کے مہنگا بیچنا۔ (24) اذان جمعہ کے وقت بیع و شراء کرنا۔ (25) مال کا عیب چھپا کر بیچنا۔ (26) شکار یا مویشیوں کی حفاظت کی ضرورت کے بغیر کتا پالنا۔ (27) مسجد میں حاضرین کی گردنوں کو پھاند کر جانا۔ (28) زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوجانے کے بعد ادائیگی میں تاخیر کرنا۔ (29) راستے میں بیع و شراء یا کسی ضرورت کے لیے کھڑا ہونا جس سے راہ گیروں کو تکلیف ہو یا راستے میں پیشاب پاخانہ کرنا (سایہ اور دھوپ میں جہاں لوگ اٹھتے بیٹھتے ہوں اور پانی کے گھاٹ پر پیشاب پاخانہ کرنا بھی اسی ممانعت میں داخل ہے) ۔ (30) بحالت جنابت اذان دینا یا مسجد میں داخل ہونا یا مسجد میں بیٹھنا۔ (31) نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا اور کپڑے وغیرہ سے کھیلنا۔ (32) نماز میں گردن موڑ کر دائیں بائیں دیکھنا۔ (33) مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا، اور وہ کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔ (34) روزے دار کا بوس و کنار کرنا۔ اور وہ کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔ (35) گھٹیا مال سے زکوٰۃ ادا کرنا۔ (36) ذبح کرنے میں اخیر تک (پوری گردن) کاٹ دینا۔ (37) بالغ عورت کا اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینا۔ (38) ایک سے زیادہ طلاق دینا۔ (39) زمانۂ حیض میں طلاق دینا۔ (40) جس طہر میں جماع کیا ہو اس میں طلاق دینا۔ (41) اولاد کو لینے دینے میں کسی ایک کو ترجیح دینا، الایہ کہ علم یا صلاح کی وجہ سے کسی کو ترجیح دے۔ (42) قاضی کا مدعی اور مدعیٰ علیہ کے درمیان برابری نہ کرنا۔ (43) سلطان کا یا جس کے مال میں غالب حرام ہو ہدیہ قبول کرنا اور اس کا کھانا کھانا اور اس کی دعوت قبول کرنا۔ (44) کسی کی زمین میں بغیر اجازت کے چلنا۔ (45) انسان یا کسی حیوان کا مثلہ کرنا، یعنی ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ دینا) ۔ (46) نماز پڑھتے ہوئے تصویر پر سجدہ کرنا یا ایسی صورت میں نماز پڑھنا کہ نمازی کے مقابل یا اس کے برابر تصویر ہو۔ (47) کافر کو سلام کرنا۔ (48) بچہ کو وہ لباس پہنانا جو بالغ کے لیے جائز نہ ہو۔ (49) پیٹ بھرنے کے بعد بھی کھاتے رہنا۔ (50) مسلمان سے بدگمانی کرنا۔ (51) لہو و لعب کی چیزیں سننا۔ (52) غیبت سن کر خاموش رہ جانا (غیبت کرنے والے کو منع نہ کرنا اور تردید نہ کرنا) ۔ (53) زبردستی امام بننا (جبکہ مقتدیوں کو اس کی امامت گوارا نہ ہو اور اس کی ذات میں دینی اعتبار سے کوئی قصور ہو۔ (54) خطبے کے وقت باتیں کرنا۔ (55) مسجد کی چھت پر یا مسجد کے راستے میں نجاست ڈالنا۔ (56) دل میں یہ نیت رکھتے ہوئے کسی سے کوئی وعدہ کرلینا کہ پورا نہیں کروں گا۔ (57) مزاح یا مدح میں افراط کرنا۔ (58) غصہ کرنا (ہاں اگر دینی ضرورت سے ہو تو جائز ہے) ۔ عام طور سے جن چیزوں میں لوگ مبتلا ہیں وہ ہم نے ذکر کردی ہیں بعض چیزیں جو ابن نجیم کی کتاب میں ہیں وہ ہم نے چھوڑ دی ہیں اور صغائر ہیں انہوں نے بعض وہ چیزیں ذکر کی ہیں جن کو حافظ ذہبی نے کبائر میں شمار کیا ہے اور یوں بھی مذکورہ گناہوں میں بعض کو صغائر میں شمار کرنا محل نظر ہے۔ خاص کر کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا اور سلام کلام بند رکھنا اس کو صغائر میں شمار کرنا نا درست ہے اس پر حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے۔ اور یہ ایک اجتہادی امر ہے کہ صغیرہ گناہ کون کون سے ہیں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق حضرات اکابر نے تعیین فرما دی ہے۔ حج یا عمرہ کا احرام میں داخل ہو کر اسے فاسد کردینا یا ممنوعات احرام کا قصداً ارتکاب کرنا یا نماز شروع کر کے بغیر عذر شرعی کے توڑ دینا اس کا ذکر نہ حافظ ذہبی نے کیا نہ ابن نجیم نے، اگر دیگر احادیث شریفہ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے اور گناہ بھی سامنے آجائیں گے۔ ہمارا رسالہ گناہوں کی فہرست میں بھی ملاحظہ کرلیا جائے جس میں گناہوں پر جو وعیدیں ہیں وہ ذکر کردی گئی ہیں۔ صغیرہ گناہ بھی گناہ ہے۔ اس سے بھی بچنا واجب ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ کرنے والے ہیں یعنی فرشتے جو نیکی بدی لکھنے پر مامور ہیں وہ ان کو بھی لکھتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 458) فائدہ : صغیرہ گناہ کا ارتکاب اگر عذاب اور مواخذہ سے ڈرتے ہوئے کرلیا جائے تو صغیرہ ہے، اگر لاپرواہی سے کیا جائے اور یہ سمجھ کر کرے کہ اس میں کوئی بات نہیں تو پھر کبیرہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح صغیرہ پر اصرار کرنے یعنی بار بار ارتکاب کرنے سے بھی صغیرہ کبیرہ ہوجاتا ہے اور جس عمل کی جو ممانعت قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے اس ممانعت کو کوئی حیثیت نہ دینا یہ کفر ہے۔ خواہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ۔
Top