Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا
: اور تم عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَلَا تُشْرِكُوْا
: اور نہ شریک کرو
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ۔ کسی کو
وَّ
: اور
بِالْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ سے
اِحْسَانًا
: اچھا سلوک
وَّ
: اور
بِذِي الْقُرْبٰى
: قرابت داروں سے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور محتاج (جمع)
وَالْجَارِ
: ہمسایہ
ذِي الْقُرْبٰى
: قرابت والے
وَالْجَارِ
: اور ہمسایہ
الْجُنُبِ
: اجنبی
وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ
: اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس)
وَ
: اور
ابْنِ السَّبِيْلِ
: مسافر
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: تمہاری ملک (کنیز۔ غلام
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مُخْتَالًا
: اترانے والا
فَخُوْرَۨا
: بڑ مارنے والا
اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو مالکانہ طور پر تمہارے قبضہ میں ہیں اچھا سلوک کرو، بیشک اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھے، شیخی کی باتیں کرے
والدین، اقرباء پڑوسی، یتامیٰ مساکین، اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ان آیات میں اول تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت ہی کرلیے پیدا فرمایا ہے اس لیے بار بار قرآن میں اس کی یاد دہانی فرمائی ہے سب سے بڑی عبادت توحید ہے اور شرک سے توحید ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بار بار شرک سے بیزار ہونے کا بھی حکم فرمایا ہے، عبادت اللہ کا حق ہے، حقوق اللہ کو ذکر فرمانے کے بعد حقوق العباد کا تذکرہ فرمایا جن میں سے سب سے پہلے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، چونکہ ماں باپ اس دنیا میں اولاد کے وجود میں آنے کا سبب ہیں اس لیے ان کا حق بہت بڑا ہے۔ حق اللہ بیان فرمانے کے ساتھ ہی حکم فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ لفظ حسن سلوک میں سب باتیں آجاتی ہیں۔ جس کو سورة بقرہ میں اور یہاں سورة نساء میں اور سورة انعام میں اور سورة اسراء میں (بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) سے تعبیر فرمایا ہے۔ ماں باپ کی فرمانبرداری راحت رسانی اور ہر طرح کی خدمت ان لفظوں کے عموم میں آجاتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری جائز نہیں۔ مزید تشریح سورة بقرہ کے دسویں رکوع کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ وبذی القربی فرما کر دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے اور انہیں لینے دینے کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ صلہ رحمی کی دین اسلام میں بہت بڑی فضیلت ہے اور اس کے بر خلاف قطع رحمی کی بہت زیادہ مذمت آئی ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا کچھ بیان اور اس کی تفصیلات سورة بقرہ (ع 22) کے ذیل میں گزر چکی ہے، نیز یتامیٰ اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارے میں بھی وہیں لکھا جا چکا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ (انوار البیان صفحہ 297) قطع رحمی کے بارے میں اسی سورة نساء کے پہلے رکوع کی تفسیر دوبارہ دیکھ لیں۔ پھر (الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی) اور (وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ) اور (الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ ) اور (ابْنِ السَّبِیْلِ ) کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا ہے (الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی) کا ترجمہ پاس والا پڑوسی اور (الْجَارِ الْجُنُبِ ) کا ترجمہ دور والا پڑوسی کیا گیا ہے۔ اور (الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ ) سے مفسرین نے ہم مجلس مراد لیا ہے۔ یوں تو تمام مسلمانوں بلکہ سارے انسانوں کے ساتھ خوش اخلاقی والی زندگی گزارنا اور ہر ایک کے حقوق پہچاننا اور ان کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن عام طور سے چونکہ والدین اور عزیز قریب اور پڑوسی اور ہم مجلس سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے اس لیے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کی خصوصیت سے نصیحت فرمائی۔ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) مجھے برابر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوگیا کہ وہ پڑوسی کو وارث ہی بنا دیں گے (رواہ البخاری صفحہ 889) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پڑوسیوں میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں اور حسن سلوک میں سب سے بہتر ہو۔ (رواہ الترمذی) ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نے اچھا عمل کیا یا برا عمل کیا آپ نے فرمایا کہ جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ تیرے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تو نے اچھا کیا تو سمجھ لے واقعی تو نے اچھا کیا اور جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ وہ تیرے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تو نے برا کیا تو سمجھ لے تو نے برا کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 444) ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں۔ عرض کیا گیا کون یا رسول اللہ ؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے بےفکر نہیں۔ (رواہ البخاری صفحہ 889: ج 2) اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے بےخوف نہ ہو (رواہ مسلم صفحہ 50: ج 1) بہت سے لوگوں کو نفلیں پڑھنے اور ذکر و تسبیح میں مشغول رہنے کا تو خیال ہوتا ہے لیکن پڑوسیوں کو ان سے تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ حالانکہ حقوق العباد کا خیال رکھنا نفل عبادت سے زیادہ ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! فلاں عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ نمازیں بہت پڑھتی ہے روزے بہت رکھتی ہے اور صدقہ بہت دیتی ہے لیکن وہ پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا بھی پہنچاتی ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دوزخ میں ہے، اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! فلاں عورت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نفلی روزے کم رکھتی ہے اور صدقہ بھی کم دیتی ہے اور نفلی نماز بھی کم پڑھتی ہے اور پنیر کے کچھ ٹکڑوں کا صدقہ دیتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی آپ نے فرمایا کہ وہ جنت میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 340) حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھرلے اور اس کا پڑوسی اس کی بغل میں بھوکا رہ جائے (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ صفحہ 424) تمام ہی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا دھیان رکھا جائے، اگر کچھ لینا دینا ہو (اور زیادہ نہ ہو) تو اس میں قریب ترین پڑوسی کا خیال رکھے۔ حضرت ابوذر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو شوربا پکائے تو اس کا پانی زیادہ کردینا اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا۔ (رواہ مسلم صفحہ 320) حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو ہدیہ دوں ؟ آپ نے فرمایا ان دونوں میں سے جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو اس کو دے دو ۔ (صحیح بخاری صفحہ 890: ج 2) (الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی) کا مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا یعنی نزدیک والا پڑوسی اور دوسرا مطلب وہ ہے جو حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی اس طرح سے اس کے دو حق ہوجائیں گے، ایک پڑوسی ہونے کا اور دوسرا قرابت دار ہونے کا اور (الْجَارِ الْجُنُبِ ) سے صرف وہ پڑوسی مراد ہوگا، جو رشتہ دار نہ ہو۔ (الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ ) کا ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا یعنی پہلو کا ساتھی اور مفسرین نے اس سے ہمنشین یعنی مجلس میں ساتھ بیٹھنے والا مراد لیا ہے، پاس بیٹھنے والوں کے بھی حقوق ہیں، ان کو تکلیف نہ پہنچائے، اپنی ایسی حالت نہ رکھے جس سے انہیں تکلیف ہو اور مجلس کی بات کو امانت سمجھے دوسری جگہ نہ پہنچائے، چغل خوری نہ کرے، ادھر کی ادھر نہ لگائے اور عموم لفظ کی وجہ سے بعض مفسرین نے سفر کے ساتھی کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ لہٰذا ہر رفیق سفر، رشتہ دار، غیر رشتہ دار سب کے ساتھ حسن سلوک کرے نہ قول سے تکلیف دے، اور نہ عمل سے، اور نہ کسی اور طرح سے۔ جگہ تنگ ہو تو فراخ کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنا اور سب کا سفر اچھی طرح سے گزرے جو لوگ کسی جگہ ایک ساتھ کام کرتے ہیں وہ بھی الصاحب بالجنب کے عموم میں شامل ہیں (من روح المعانی) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے خیر الاصحاب عنداللّٰہ خیر ھم لصاحبہ یعنی ساتھیوں میں سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 424) حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سفر میں جماعت کا سردار وہی ہے جو ان کا خدمت گزار ہو، سو جو شخص اپنے ساتھیوں سے خدمت میں بڑھ گیا وہ شہید ہونے کے علاوہ کسی عمل کے ذریعہ اس سے آگے نہ بڑھیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 340) حضرت علی ؓ نے الصاحب بالجنب (پہلو کا ساتھی) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ھو المراۃ تکون معہ الی جنبہ یعنی اس سے بیوی مراد ہے جو پہلو میں ساتھ رہتی ہے (ذکرہ فی معالم التنزیل) یہ تفسیر بھی الفاظ قرآنیہ سے قریب ہے بلکہ قریب تر ہے۔ (وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ) یعنی مسافر، صاحب معالم التنزیل (صفحہ 435: ج 1) لکھتے ہیں کہ اکثر حضرات نے اس کو مہمان پر محمول کیا ہے۔ درحقیقت مسافر کے عموم میں مہمان بھی آجاتا ہے، مسافر مہمان ہو یا غیر مہمان اس کی دلداری، مدد اور اعانت ضروری ہوتی ہے۔ پردیس میں وہ ذرا ذرا سی میٹھی بات کو ترستا ہے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا بہت بڑے اجر وثواب کی چیز ہے۔ غلام باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : پھر فرمایا (وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) کہ جو تمہارے باندی اور غلام ہیں اور وہ تمہارے تصرف میں ہیں ان کے ساتھ بھی خوبی کا برتاؤ کرو۔ اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آؤ۔ ان کی خوراک پوشاک کا خیال کرو۔ ان پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔ طاقت سے زیادہ کام نہ لو۔ حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ یہ باندی غلام تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے خادم ہیں۔ اللہ نے ان کو تمہارے تصرف میں دے دیا ہے۔ سو جس کے تصرف میں کوئی غلام ہو وہ اسے اسی میں سے کھلائے جس میں سے خود کھاتا ہے۔ اور اسی میں سے پہنائے جس میں سے خود پہنتا ہے اور ان سے وہ کام نہ لو جس کی ان کو طاقت نہ ہو۔ اگر طاقت سے زیادہ کام لوتو ان کی مدد کر دو ۔ (رواہ البخاری صفحہ 346) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے غلام کو ایسے عمل پر سزا دی جو عمل اس نے نہیں کیا تھا۔ یا اس کو طمانچہ مار دیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔ (رواہ مسلم صفحہ 51: ج 2) حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جو اپنے مملوک کے ساتھ بری طرح پیش آتا ہو۔ (رواہ الترمذی باب ماجاء فی الاحسان الی الخادم) حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے مرض الوفاۃ میں یہ وصیت فرماتے رہے کہ نمازوں کا اہتمام کرنا اور غلاموں اور باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ صفحہ 291) مسلمانوں میں شرعی جہاد نہیں رہا تو غلاموں اور باندیوں کی نعمت سے بھی محروم ہوگئے اللہ وہ دن لائے کہ شرعی جہاد ہو اور کافر قیدی آئیں اور غلام اور باندیاں بنیں۔ تکبر کی مذمت : پھر فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْراً ) (کہ بلاشک اللہ دوست نہیں رکھتا اس شخص کو جو اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور شیخی کی باتیں کرے) آیت کے اس جزو میں ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اور دوسروں کو حقیر جانتے ہیں فخر، کبر اور نخوت کے نشے میں بھرے رہتے ہیں یہ مضمون سورة لقمان میں اور سورة الحدید میں بھی بیان فرمایا ہے لفظ مختال خیلاء سے ماخوذ ہے اور باب افتعال سے اسم فاعل کا صیغہ ہے، یہ لفظ اپنے کو بڑا سمجھنے، اترانے، آپے میں پھولے نہ سمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اپنے کو بڑا سمجھنا یہ دل کا بہت بڑا روگ ہے اور اکثر گناہ اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ شہرت کا طالب ہونا، اعمال میں ریا کاری کرنا، بیاہ شادی میں دنیاداری کی رسمیں برتنا اور یہ خیال کرنا کہ ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے، یہ سب تکبر کے شعبے ہیں۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا پہننا تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے : حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ (رواہ البخاری صفحہ 861) حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ مومن کا تہبند آدھی پنڈلیوں تک ہونا چاہیے (اور) اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں کہ آدھی پنڈلیوں اور ٹخنوں کے درمیان ہو، اور جو اس کے نیچے ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، جس نے اپنا تہبند اتراتے ہوئے گھسیٹا (رواہ ابوداؤد صفحہ 210: ج 2) کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا گناہ صرف تہبند ہی میں نہیں۔ بلکہ دوسرے کپڑوں میں بھی ہے، کرتہ، عمامہ، پائجامہ کو اگر کوئی ٹخنوں سے نیچے لٹکائے تو یہ بھی اسی ممانعت میں شامل ہیں۔ قال النبی الاسبال فی الا زار و القمیص و العمامۃ من جرمنھا شیئا خیلاء لم ینظر اللّٰہ الیہ یوم القیامۃ۔ (رواہ ابوداود صفحہ 210: ج 2) حضرت جابر بن سلیم ؓ کو آنحضرت ﷺ نے جو نصیحتیں فرمائیں ان میں سے یہ بھی ہے اِیَّاکَ وَ اِسْبَال الازار فَاِنَّھَا مِنَ الْمخِیْلَۃِ وَ اِنَّ لاَ یُحِبُّ الْمُخِیْلَۃَ (کہ تہبند کو لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور بیشک اللہ تکبر پسند نہیں کرتا۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 210: ج 2) آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اَنَّھَا مِنَ الْمُخِیْلَہِ فرما کر ان لوگوں کی بات کی تردید فرما دی ہے جو ٹخنوں سے نیچا کپڑا پہنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تکبر کی وجہ سے نہیں پہنتے جو لوگ ٹخنوں سے نیچا کپڑا پہنتے ہیں اگر اونچا پہن لیں تو اس میں اپنی اہانت سمجھتے ہیں اور جو لوگ اونچا کپڑا پہنتے ہیں ان کو حقیر جانتے ہیں یہی تو تکبر ہے یہ لوگ کسی بھی طرح آدھی پنڈلی تک تہبند باندھ کر بازار میں جا کر دکھا دیں دیکھو نفس گوارا کرتا ہے یا نہیں ؟ اس سے پتہ چل جائے گا کہ ٹخنوں سے نیچا پہننا تکبر کے لیے ہے یا نہیں ؟ سابقہ امتوں میں سے ایک شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ تکبر سے اپنے تہبند کو گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا لہٰذا اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا، وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ ( رواہ البخاری صفحہ 861: ج 2) تکبر کے چند شعبے : ناحق پر اصرار کرنا، حق کو ٹھکرانا، غلط بات کہہ کر غلطی واضح ہوجانے پر حق قبول نہ کرنا، شریعت پر چلنے میں خفت محسوس کرنا، گناہوں کو اس لیے نہ چھوڑنا کہ معاشرہ والے کیا کہیں گے، یہ سب تکبر سے پیدا ہونے والی چیزیں ہیں، ایک صحابی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتا اچھا ہو (کیا یہ تکبر ہے ؟ ) فرمایا اللہ جل شانہ جمیل ہے جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرائے اور لوگوں کو حقیر جانے۔ (رواہ مسلم صفحہ 65: ج 1) مختال کی مذمت کے ساتھ فخور کی مذمت بھی فرمائی ہے، لفظ فخور فخر سے ماخوذ ہے شیخی بگھارنا اپنی جھوٹی سچی تعریفیں کرنا، ان سب کو فخر شامل ہے بہت سے لوگوں میں یہ مرض ہوتا ہے کہ مال یا علم یا عہدہ کی وجہ سے نشہ میں چور رہتے ہیں، شیخی بگھارتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے، اور وہ اللہ کے عاجز بندے ہیں، جو کچھ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہیں اس انداز میں لوگوں کے سامنے ان کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے ان کے حاصل ہونے میں ان کا کمال شامل ہے اور جن کے پاس وہ چیزیں نہیں ان سے اپنے کو بلند اور برتر سمجھتے ہیں اور اپنے خالق ومالک کو بھول جاتے ہیں، اس نے جس کو دیا ہے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اور جس کو نہیں دیا اس میں اس کی حکمت ہے بندہ کا مقام یہ ہے کہ اپنے کو عاجز سمجھے اور شکر گزار رہے اور اللہ کے دوسرے بندوں کو حقیر نہ سمجھے۔ صاحب روح المعانی نے مذکورہ بالا احکام ذکر کرنے کے بعد متصلاً تکبر فخر و مباہات کی مذت بیان کرنے کا ارتباط ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے ای ذی خیلاء کبریانف من جیرانہ مثلاً واقاربہ ولا یلتف الیھم یعد مناقبہ علیھم تطاولا وتعاظماً والجملۃ تعلیل الامر السابق مطلب یہ ہے کہ تکبر و غرور اور شیخی والا اپنے عزیزوں پڑوسیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور ان کے مقابلہ میں اپنی فضیلتیں شمار کرتا ہے اور تکبر و فخر کی وجہ سے حسن سلوک سے متعلق جو احکام ہیں ان پر عمل نہیں کرتا، صاحب روح المعانی نے ٹھیک فرمایا جن لوگوں میں اپنی بڑائی اور برتری کا دھیان ہوتا ہے، وہ اعزہ واقربا پڑوسیوں کی مدد تو کیا کرتے ان کی تو خواہش یہی رہتی ہے کہ یہ لوگ حاجت مند غریب اور فقیر ہی رہیں تاکہ ہماری برابری نہ کرسکیں۔ اگر ایک بھائی پیسے والا ہے تو غریب بھائی کے گھر آنا جانا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اور اس میں خفت و بےآبروئی محسوس کرتا ہے۔ یہ جذبہ تکبر صلہ رحمی سے مانع رہتا ہے۔
Top