Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو مالکانہ طور پر تمہارے قبضہ میں ہیں اچھا سلوک کرو، بیشک اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھے، شیخی کی باتیں کرے
والدین، اقرباء پڑوسی، یتامیٰ مساکین، اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ان آیات میں اول تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت ہی کرلیے پیدا فرمایا ہے اس لیے بار بار قرآن میں اس کی یاد دہانی فرمائی ہے سب سے بڑی عبادت توحید ہے اور شرک سے توحید ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بار بار شرک سے بیزار ہونے کا بھی حکم فرمایا ہے، عبادت اللہ کا حق ہے، حقوق اللہ کو ذکر فرمانے کے بعد حقوق العباد کا تذکرہ فرمایا جن میں سے سب سے پہلے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، چونکہ ماں باپ اس دنیا میں اولاد کے وجود میں آنے کا سبب ہیں اس لیے ان کا حق بہت بڑا ہے۔ حق اللہ بیان فرمانے کے ساتھ ہی حکم فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ لفظ حسن سلوک میں سب باتیں آجاتی ہیں۔ جس کو سورة بقرہ میں اور یہاں سورة نساء میں اور سورة انعام میں اور سورة اسراء میں (بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) سے تعبیر فرمایا ہے۔ ماں باپ کی فرمانبرداری راحت رسانی اور ہر طرح کی خدمت ان لفظوں کے عموم میں آجاتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری جائز نہیں۔ مزید تشریح سورة بقرہ کے دسویں رکوع کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ وبذی القربی فرما کر دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے اور انہیں لینے دینے کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ صلہ رحمی کی دین اسلام میں بہت بڑی فضیلت ہے اور اس کے بر خلاف قطع رحمی کی بہت زیادہ مذمت آئی ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا کچھ بیان اور اس کی تفصیلات سورة بقرہ (ع 22) کے ذیل میں گزر چکی ہے، نیز یتامیٰ اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارے میں بھی وہیں لکھا جا چکا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ (انوار البیان صفحہ 297) قطع رحمی کے بارے میں اسی سورة نساء کے پہلے رکوع کی تفسیر دوبارہ دیکھ لیں۔ پھر (الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی) اور (وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ) اور (الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ ) اور (ابْنِ السَّبِیْلِ ) کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا ہے (الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی) کا ترجمہ پاس والا پڑوسی اور (الْجَارِ الْجُنُبِ ) کا ترجمہ دور والا پڑوسی کیا گیا ہے۔ اور (الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ ) سے مفسرین نے ہم مجلس مراد لیا ہے۔ یوں تو تمام مسلمانوں بلکہ سارے انسانوں کے ساتھ خوش اخلاقی والی زندگی گزارنا اور ہر ایک کے حقوق پہچاننا اور ان کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن عام طور سے چونکہ والدین اور عزیز قریب اور پڑوسی اور ہم مجلس سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے اس لیے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کی خصوصیت سے نصیحت فرمائی۔ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) مجھے برابر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوگیا کہ وہ پڑوسی کو وارث ہی بنا دیں گے (رواہ البخاری صفحہ 889) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پڑوسیوں میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں اور حسن سلوک میں سب سے بہتر ہو۔ (رواہ الترمذی) ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نے اچھا عمل کیا یا برا عمل کیا آپ نے فرمایا کہ جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ تیرے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تو نے اچھا کیا تو سمجھ لے واقعی تو نے اچھا کیا اور جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ وہ تیرے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تو نے برا کیا تو سمجھ لے تو نے برا کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 444) ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں۔ عرض کیا گیا کون یا رسول اللہ ؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے بےفکر نہیں۔ (رواہ البخاری صفحہ 889: ج 2) اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے بےخوف نہ ہو (رواہ مسلم صفحہ 50: ج 1) بہت سے لوگوں کو نفلیں پڑھنے اور ذکر و تسبیح میں مشغول رہنے کا تو خیال ہوتا ہے لیکن پڑوسیوں کو ان سے تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ حالانکہ حقوق العباد کا خیال رکھنا نفل عبادت سے زیادہ ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! فلاں عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ نمازیں بہت پڑھتی ہے روزے بہت رکھتی ہے اور صدقہ بہت دیتی ہے لیکن وہ پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا بھی پہنچاتی ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دوزخ میں ہے، اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! فلاں عورت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نفلی روزے کم رکھتی ہے اور صدقہ بھی کم دیتی ہے اور نفلی نماز بھی کم پڑھتی ہے اور پنیر کے کچھ ٹکڑوں کا صدقہ دیتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی آپ نے فرمایا کہ وہ جنت میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 340) حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھرلے اور اس کا پڑوسی اس کی بغل میں بھوکا رہ جائے (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ صفحہ 424) تمام ہی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا دھیان رکھا جائے، اگر کچھ لینا دینا ہو (اور زیادہ نہ ہو) تو اس میں قریب ترین پڑوسی کا خیال رکھے۔ حضرت ابوذر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو شوربا پکائے تو اس کا پانی زیادہ کردینا اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا۔ (رواہ مسلم صفحہ 320) حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو ہدیہ دوں ؟ آپ نے فرمایا ان دونوں میں سے جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو اس کو دے دو ۔ (صحیح بخاری صفحہ 890: ج 2) (الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی) کا مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا یعنی نزدیک والا پڑوسی اور دوسرا مطلب وہ ہے جو حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی اس طرح سے اس کے دو حق ہوجائیں گے، ایک پڑوسی ہونے کا اور دوسرا قرابت دار ہونے کا اور (الْجَارِ الْجُنُبِ ) سے صرف وہ پڑوسی مراد ہوگا، جو رشتہ دار نہ ہو۔ (الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ ) کا ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا یعنی پہلو کا ساتھی اور مفسرین نے اس سے ہمنشین یعنی مجلس میں ساتھ بیٹھنے والا مراد لیا ہے، پاس بیٹھنے والوں کے بھی حقوق ہیں، ان کو تکلیف نہ پہنچائے، اپنی ایسی حالت نہ رکھے جس سے انہیں تکلیف ہو اور مجلس کی بات کو امانت سمجھے دوسری جگہ نہ پہنچائے، چغل خوری نہ کرے، ادھر کی ادھر نہ لگائے اور عموم لفظ کی وجہ سے بعض مفسرین نے سفر کے ساتھی کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ لہٰذا ہر رفیق سفر، رشتہ دار، غیر رشتہ دار سب کے ساتھ حسن سلوک کرے نہ قول سے تکلیف دے، اور نہ عمل سے، اور نہ کسی اور طرح سے۔ جگہ تنگ ہو تو فراخ کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنا اور سب کا سفر اچھی طرح سے گزرے جو لوگ کسی جگہ ایک ساتھ کام کرتے ہیں وہ بھی الصاحب بالجنب کے عموم میں شامل ہیں (من روح المعانی) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے خیر الاصحاب عنداللّٰہ خیر ھم لصاحبہ یعنی ساتھیوں میں سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 424) حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سفر میں جماعت کا سردار وہی ہے جو ان کا خدمت گزار ہو، سو جو شخص اپنے ساتھیوں سے خدمت میں بڑھ گیا وہ شہید ہونے کے علاوہ کسی عمل کے ذریعہ اس سے آگے نہ بڑھیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 340) حضرت علی ؓ نے الصاحب بالجنب (پہلو کا ساتھی) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ھو المراۃ تکون معہ الی جنبہ یعنی اس سے بیوی مراد ہے جو پہلو میں ساتھ رہتی ہے (ذکرہ فی معالم التنزیل) یہ تفسیر بھی الفاظ قرآنیہ سے قریب ہے بلکہ قریب تر ہے۔ (وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ) یعنی مسافر، صاحب معالم التنزیل (صفحہ 435: ج 1) لکھتے ہیں کہ اکثر حضرات نے اس کو مہمان پر محمول کیا ہے۔ درحقیقت مسافر کے عموم میں مہمان بھی آجاتا ہے، مسافر مہمان ہو یا غیر مہمان اس کی دلداری، مدد اور اعانت ضروری ہوتی ہے۔ پردیس میں وہ ذرا ذرا سی میٹھی بات کو ترستا ہے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا بہت بڑے اجر وثواب کی چیز ہے۔ غلام باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : پھر فرمایا (وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) کہ جو تمہارے باندی اور غلام ہیں اور وہ تمہارے تصرف میں ہیں ان کے ساتھ بھی خوبی کا برتاؤ کرو۔ اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آؤ۔ ان کی خوراک پوشاک کا خیال کرو۔ ان پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔ طاقت سے زیادہ کام نہ لو۔ حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ یہ باندی غلام تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے خادم ہیں۔ اللہ نے ان کو تمہارے تصرف میں دے دیا ہے۔ سو جس کے تصرف میں کوئی غلام ہو وہ اسے اسی میں سے کھلائے جس میں سے خود کھاتا ہے۔ اور اسی میں سے پہنائے جس میں سے خود پہنتا ہے اور ان سے وہ کام نہ لو جس کی ان کو طاقت نہ ہو۔ اگر طاقت سے زیادہ کام لوتو ان کی مدد کر دو ۔ (رواہ البخاری صفحہ 346) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے غلام کو ایسے عمل پر سزا دی جو عمل اس نے نہیں کیا تھا۔ یا اس کو طمانچہ مار دیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔ (رواہ مسلم صفحہ 51: ج 2) حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جو اپنے مملوک کے ساتھ بری طرح پیش آتا ہو۔ (رواہ الترمذی باب ماجاء فی الاحسان الی الخادم) حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے مرض الوفاۃ میں یہ وصیت فرماتے رہے کہ نمازوں کا اہتمام کرنا اور غلاموں اور باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ صفحہ 291) مسلمانوں میں شرعی جہاد نہیں رہا تو غلاموں اور باندیوں کی نعمت سے بھی محروم ہوگئے اللہ وہ دن لائے کہ شرعی جہاد ہو اور کافر قیدی آئیں اور غلام اور باندیاں بنیں۔ تکبر کی مذمت : پھر فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْراً ) (کہ بلاشک اللہ دوست نہیں رکھتا اس شخص کو جو اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور شیخی کی باتیں کرے) آیت کے اس جزو میں ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اور دوسروں کو حقیر جانتے ہیں فخر، کبر اور نخوت کے نشے میں بھرے رہتے ہیں یہ مضمون سورة لقمان میں اور سورة الحدید میں بھی بیان فرمایا ہے لفظ مختال خیلاء سے ماخوذ ہے اور باب افتعال سے اسم فاعل کا صیغہ ہے، یہ لفظ اپنے کو بڑا سمجھنے، اترانے، آپے میں پھولے نہ سمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اپنے کو بڑا سمجھنا یہ دل کا بہت بڑا روگ ہے اور اکثر گناہ اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ شہرت کا طالب ہونا، اعمال میں ریا کاری کرنا، بیاہ شادی میں دنیاداری کی رسمیں برتنا اور یہ خیال کرنا کہ ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے، یہ سب تکبر کے شعبے ہیں۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا پہننا تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے : حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ (رواہ البخاری صفحہ 861) حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ مومن کا تہبند آدھی پنڈلیوں تک ہونا چاہیے (اور) اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں کہ آدھی پنڈلیوں اور ٹخنوں کے درمیان ہو، اور جو اس کے نیچے ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، جس نے اپنا تہبند اتراتے ہوئے گھسیٹا (رواہ ابوداؤد صفحہ 210: ج 2) کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا گناہ صرف تہبند ہی میں نہیں۔ بلکہ دوسرے کپڑوں میں بھی ہے، کرتہ، عمامہ، پائجامہ کو اگر کوئی ٹخنوں سے نیچے لٹکائے تو یہ بھی اسی ممانعت میں شامل ہیں۔ قال النبی الاسبال فی الا زار و القمیص و العمامۃ من جرمنھا شیئا خیلاء لم ینظر اللّٰہ الیہ یوم القیامۃ۔ (رواہ ابوداود صفحہ 210: ج 2) حضرت جابر بن سلیم ؓ کو آنحضرت ﷺ نے جو نصیحتیں فرمائیں ان میں سے یہ بھی ہے اِیَّاکَ وَ اِسْبَال الازار فَاِنَّھَا مِنَ الْمخِیْلَۃِ وَ اِنَّ لاَ یُحِبُّ الْمُخِیْلَۃَ (کہ تہبند کو لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور بیشک اللہ تکبر پسند نہیں کرتا۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 210: ج 2) آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اَنَّھَا مِنَ الْمُخِیْلَہِ فرما کر ان لوگوں کی بات کی تردید فرما دی ہے جو ٹخنوں سے نیچا کپڑا پہنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تکبر کی وجہ سے نہیں پہنتے جو لوگ ٹخنوں سے نیچا کپڑا پہنتے ہیں اگر اونچا پہن لیں تو اس میں اپنی اہانت سمجھتے ہیں اور جو لوگ اونچا کپڑا پہنتے ہیں ان کو حقیر جانتے ہیں یہی تو تکبر ہے یہ لوگ کسی بھی طرح آدھی پنڈلی تک تہبند باندھ کر بازار میں جا کر دکھا دیں دیکھو نفس گوارا کرتا ہے یا نہیں ؟ اس سے پتہ چل جائے گا کہ ٹخنوں سے نیچا پہننا تکبر کے لیے ہے یا نہیں ؟ سابقہ امتوں میں سے ایک شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ تکبر سے اپنے تہبند کو گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا لہٰذا اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا، وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ ( رواہ البخاری صفحہ 861: ج 2) تکبر کے چند شعبے : ناحق پر اصرار کرنا، حق کو ٹھکرانا، غلط بات کہہ کر غلطی واضح ہوجانے پر حق قبول نہ کرنا، شریعت پر چلنے میں خفت محسوس کرنا، گناہوں کو اس لیے نہ چھوڑنا کہ معاشرہ والے کیا کہیں گے، یہ سب تکبر سے پیدا ہونے والی چیزیں ہیں، ایک صحابی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتا اچھا ہو (کیا یہ تکبر ہے ؟ ) فرمایا اللہ جل شانہ جمیل ہے جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرائے اور لوگوں کو حقیر جانے۔ (رواہ مسلم صفحہ 65: ج 1) مختال کی مذمت کے ساتھ فخور کی مذمت بھی فرمائی ہے، لفظ فخور فخر سے ماخوذ ہے شیخی بگھارنا اپنی جھوٹی سچی تعریفیں کرنا، ان سب کو فخر شامل ہے بہت سے لوگوں میں یہ مرض ہوتا ہے کہ مال یا علم یا عہدہ کی وجہ سے نشہ میں چور رہتے ہیں، شیخی بگھارتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے، اور وہ اللہ کے عاجز بندے ہیں، جو کچھ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہیں اس انداز میں لوگوں کے سامنے ان کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے ان کے حاصل ہونے میں ان کا کمال شامل ہے اور جن کے پاس وہ چیزیں نہیں ان سے اپنے کو بلند اور برتر سمجھتے ہیں اور اپنے خالق ومالک کو بھول جاتے ہیں، اس نے جس کو دیا ہے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اور جس کو نہیں دیا اس میں اس کی حکمت ہے بندہ کا مقام یہ ہے کہ اپنے کو عاجز سمجھے اور شکر گزار رہے اور اللہ کے دوسرے بندوں کو حقیر نہ سمجھے۔ صاحب روح المعانی نے مذکورہ بالا احکام ذکر کرنے کے بعد متصلاً تکبر فخر و مباہات کی مذت بیان کرنے کا ارتباط ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے ای ذی خیلاء کبریانف من جیرانہ مثلاً واقاربہ ولا یلتف الیھم یعد مناقبہ علیھم تطاولا وتعاظماً والجملۃ تعلیل الامر السابق مطلب یہ ہے کہ تکبر و غرور اور شیخی والا اپنے عزیزوں پڑوسیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور ان کے مقابلہ میں اپنی فضیلتیں شمار کرتا ہے اور تکبر و فخر کی وجہ سے حسن سلوک سے متعلق جو احکام ہیں ان پر عمل نہیں کرتا، صاحب روح المعانی نے ٹھیک فرمایا جن لوگوں میں اپنی بڑائی اور برتری کا دھیان ہوتا ہے، وہ اعزہ واقربا پڑوسیوں کی مدد تو کیا کرتے ان کی تو خواہش یہی رہتی ہے کہ یہ لوگ حاجت مند غریب اور فقیر ہی رہیں تاکہ ہماری برابری نہ کرسکیں۔ اگر ایک بھائی پیسے والا ہے تو غریب بھائی کے گھر آنا جانا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اور اس میں خفت و بےآبروئی محسوس کرتا ہے۔ یہ جذبہ تکبر صلہ رحمی سے مانع رہتا ہے۔
Top