Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ بنائیں گے
قیامت کے دن ہر امت کے ساتھ ایک گواہ ہوگا اس آیت میں میدان آخرت کا ایک منظر بتایا ہے کہ قیامت کے دن حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی اپنی امتوں کے ساتھ آئیں گے اور ہر نبی اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دے گا کہ یہ لوگ عقائد و اعمال کے لحاظ سے ایسے ایسے تھے ان لوگوں کی گواہیوں پر حضرت خاتم الانبیاء سرور عالم ﷺ گواہی دیں گے کہ یہ حضرات سچ فرما رہے ہیں اور ان کی گواہی صحیح ہے۔ سورة بقرہ میں (لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ حضرات انبیاء (علیہ السلام) کی امتیں جب منکر ہوجائیں گی کہ کسی نے ہم کو تبلیغ نہیں کی تو امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے حق میں گواہی دے گی کہ واقعی ان حضرات نے تبلیغ کی تھی۔ پھر آنحضرت ﷺ گواہی دیں گے کہ میری امت کی گواہی صحیح ہے اور یہ گواہی دینے کے لائق ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ میں نے عرض کیا کیا آپ کے سامنے تلاوت کروں حالانکہ آپ ہی پر تو نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا کہ ہاں ! میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کسی دوسرے سے سنوں اس پر میں نے سورة نساء پڑھنی شروع کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا (فَکَیْفَ اِذَاجِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ ) تو آپ نے فرمایا کہ بس کرو میں نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (رواہ البخاری صفحہ 659: ج 2) یہ حدیث نقل کر کے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جب شاہد کا یہ حال ہے کہ اس شہادت کے استحضار سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو مشہود علیہ یعنی اس کا کیا حال ہوگا جس کے خلاف یہ گواہی ہوگی اور جسے یوم قیامت کے مصائب نے گھیر رکھا ہوگا۔
Top