Anwar-ul-Bayan - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں اسے ملنے کا گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرلے سو وہ اس کے لیے کافی ہے بلاشبہ اللہ اپنا کام پورا ہی کر کے رہتا ہے بیشک اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر فرمایا ہے۔
﴿ وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق ملنے کا خیال بھی نہ ہو) اس میں مومن بندوں کے لیے بہت بڑی تعلیم ہے جو شخص فرمانبرداری کرے گا نیک اعمال میں لگے گا گناہوں سے بچے گا اور احکام شرعیہ پر عمل کرے گا (خواہ طلاق یا رجعت سے متعلق ہوں جن کا یہاں ذکر ہے۔ خواہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق) ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی ہے۔ تقویٰ مومن بندوں کے لیے دنیا و آخرت میں فلاح کا ذریعہ ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ والوں سے دو وعدے کیے ہیں اول یہ کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی مخرج یعنی مشکلات سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا۔ دنیا میں مشکلات تو پیش آتی ہی رہتی ہیں۔ لوگ ان کے لیے تدبیریں کرتے رہتے ہیں بعض لوگ گناہوں کے ذریعہ ان کو دفع کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے وعدہ فرمایا کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں (کیا رجوع کرنے کی کوئی صورت ہے) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو پھر کہتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ002﴾ اور اے سائل تو اللہ سے نہیں ڈرا۔ میں تیرے لیے کوئی مخرج یعنی مشکل سے نکلنے کا راستہ نہیں پاتا، تو نے اللہ کی نافرمانی کی تیری عورت تجھ سے جدا ہوگئی۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 299) دوسرا وعدہ یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کو اللہ ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اس کا دھیان بھی نہ ہوگا۔ دونوں وعدے دنیا سے متعلق ہیں اور آخرت سے بھی، تقویٰ اختیار کرنے والے کے لیے دنیا میں بھی خیر ہے مشکلات سے چھٹکارہ ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے جہاں سے خیال بھی نہ ہو۔ یہ باتیں آزمائی ہوئی ہیں۔ حضرت ابوذر ؓ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں اگر لوگ اس پر عمل کرلیں تو ان کے لیے کافی ہوجائے۔ وہ آیت یہ ہے : ﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ002 وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 453) ﴿وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ 1ؕ﴾ (اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے سو اللہ اس کے لیے کافی ہے) اس سے پہلے متقی کے لیے غیبی مدد اور خیر و خوبی اور رزق کا وعدہ فرمایا اور اس جملہ میں توکل کرنے والوں سے خیر کا وعدہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے کافی ہے یہ بھی بہت بڑی بشارت ہے اور اللہ کی طرف سے مدد اور نصرت کا اعلان ہے۔ تقویٰ اور توکل دونوں بڑی اہم چیزیں ہیں مومن کی گاڑی کے پہیے ہیں۔ کوئی دونوں کو اختیار کر کے تو دیکھے پھر دونوں چیزوں کی برکات بھی دیکھ لے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کا دل ہر وادی میں کچھ نہ کچھ مشغول رہتا ہے سو جس شخص نے اپنے دل کو ان سب مشغولیتوں میں لگا دیا اس کے بارے میں اللہ کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے کس وادی میں ہلاک کر دے اور جو شخص اللہ پر توکل کرے اللہ اس کے سب کاموں کی کفایت فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 453) حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ توکل کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دیتا جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے وہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آجاتے ہیں۔ توکل کے درجات ہیں ترک اسباب بھی ایک درجہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اسی کو اختیار فرمایا کہ میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہوجاؤں بلکہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے۔ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَۙ0098 وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (رح) 0099﴾ (اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کیجئے اور سجدہ کرنے والوں میں سے رہیے اور موت آنے تک اپنے رب کی عبادت کیجئے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 444) اسباب اختیار کرتے ہوئے بھی بندہ متوکل ہوسکتا ہے بشرطیکہ اسباب پر بھروسہ نہ ہو بھروسہ اللہ پر ہی ہو اور حقیقی رازق اسی کو سمجھتا ہو جب یہ بات حاصل ہوجائے تو بندہ اسباب اختیار کرنے میں بھی گناہ سے بچتا ہے اور رزق حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرتا جس میں گناہ کو اختیار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا انداز مقرر فرمایا ہے : ﴿اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ 1ؕ﴾ (بیشک اللہ اپنا کام پورا کر ہی دیتا ہے) وہ جو ارادہ فرمائے گا اس کے ارادہ کے مطابق ہو کر رہے گا اور احکام تشریعیہ میں جو حکم دینے کا ارادہ کرے گا وہ حکم دے ہی دے گا اس کے ارادہ کو کوئی روکنے والا نہیں۔ ﴿ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا 003﴾ (بےشک اللہ نے ہر چیز کو ایک انداز مقرر میں رکھا ہے) ۔ اسی کے مطابق تکوینی اور تشریعی احکام نافذ ہوتے رہتے ہیں۔
Top