Anwar-ul-Bayan - Al-Faatiha : 1
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ : سے اسْمِ : نام اللّٰهِ : اللہ ال : جو رَحْمٰنِ : بہت مہربان الرَّحِيمِ : جو رحم کرنے والا
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(1) سورة الفاتحۃ مکیۃ سورة : جس طرح دنیا کی دوسری کتابیں مختلف ابواب میں تقسیم ہوتی ہیں اسی طرح قرآن حکیم کو بھی مختلف حصوں یا ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر ایک حصہ کو سورة کہتے ہیں اس صورت میں یہ سورة (مہموز العین) سے مشتق ہے جس کے معنی کسی شے کے بقیہ اور بچے ہوئے حصہ (ٹکڑہ) کے ہیں۔ اور سورة بھی قرآن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہے۔ اس صورت میں واؤؔ کو ہمزہ سے بدلا ہوا اقرار دیا جائے گا۔ 2- السورۃ : کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں۔ جیا کہ نابغہ کا ایک شعر ہے : الم تران اللّٰہ اوطاک سورة تری کل ملک دونھا یتذبذب (بےشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا مرتبہ بخشا ہے جس کے بارے ہر بادشاہ متذبذب نظر آتا ہے) قرآن کی ہر سورت اپنی بلند مرتبت کی وجہ سے سورة کہلاتی ہے۔ 3- یا سورة القرآن سورة المدینۃ سے مشتق ہے جس کے معنی شہر پناہ یا شہر کے گرد حفاظت کے لئے بنائی گئی فصیل کے ہیں اور ہر سورة القرآن بھی فصیل کی طرح اپنے مضامین کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (2) اور (3) کی صورت میں یہ سورے مشتق ہے اور اس کا واؤ اصلی ہے کسی سے بدلا ہوا نہیں ہے۔ قرآن حکیم کی سورتیں طویل، درمیانی ، اور مختصر ہیں، مختصر سے مختصر سورة تین آیات کی ہے۔ مثلاً سورة العصر (103) اور سورة الکوثر (108) ۔ الفاتحۃ : اسم فاعل واحد مؤنث، فتح مادہ سے مشتق ہے۔ الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں۔ یہ ازالہ دو قسم کا ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہوسکے۔ جیسے فتح الباب (دروازہ کھولنا) مثلاً قرآن مجید میں ہے وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ (12:65) اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا۔ دوم : جس کا ادراک بصیرت سے ہو مثلاً فلما نسوا حظا مما ذکروا بہ فتحنا علیہم ابواب کل شیء (6:44) جب انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو دی گئی تھی فراموش کردیا۔ تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یعنی ہر چیز کی فروانی کردی۔ اس سورة کے کئی نام ہیں۔ الفاتحۃ کھولنے والی۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کی سب سے پہلی سورت ہونے کے باعث باقی قرآن حکیم کے لئے مثل دروازہ کے ہے اور اس دروازہ کے کھلنے سے باقی قرآن حکیم آتا ہے (2) ہر چیز کے مبدا کو الفاتحۃ کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی لئے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔ (2) سبع مثانی (سات دوہرائی جانے والی آیتیں) کیونکہ بالاتفاق اس کی سات آیات ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ (3) ام الکتاب وام القرآن : کہ قرآن حکیم کے جملہ مضامین کو مشتمل ہے۔ (4) سورة الصلوٰۃ : کہ اسی کا ہر نماز میں پڑھنا واجب ہے۔ (5) سورة الحمد : کہ لفظ الحمد سے شروع ہوتی ہے (6) سورة الشفاء کہ یہ سورة ہر مرض کی شفاء ہے۔ (7) سورة الرقیہ۔ یعنی پڑھ کر دم کرنے یا پھونک مارنے والی سورۃ۔ حضرت ابو سعید ؓ نے سانپ کے کاٹے ہوئے شخص کو یہ سورة پڑھ کر دم کیا اور وہ اچھا ہوگیا۔ (8) اساس القرآن۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سورت قرآن کی جڑ ہے اور نیو ہے۔ (9) سورة الکنز۔ کیونکہ یہ مطالب اور معارف کا خزانہ ہے۔ (10) سورة الوافیہ : کہ ہر قرآن میں اسے سالم ہی پڑھا جاتا ہے۔ توڑ کر نہیں پڑھا جاتا۔ جیسا کہ بعض دیگر سورتوں کو پڑھا جاسکتا ہے۔ (11) سورة الکافیہ : کہ نماز میں یہی سورة بدوں کسی دوسری سورة کے کافی تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی دوسری سورت بدوں اس سورة کے کافی نہیں ہوسکتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ ب حرف جار ہے۔ جو مصاحبت یا استعانت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اگر مصاحبت کے لئے ہو تو ترجمہ ہوگا۔ شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ برکت حاصل کرتے ہوئے۔ اور اگر استعانت کے لئے ہو تو ترجمہ ہوگا۔ اللہ کے نام کے ساتھ مدد حاصل کرتے ہوئے (گویا اس کے معنی ہیں ساتھ، مدد کے ساتھ، اسم۔ نام۔ مادہ س۔ م۔ و سے مشتق ہے۔ سما یسمو (باب نصر) سمو، بمعنی بلند ہونا جیسے عربی میں کہتے ہیں سموات الیہ بصری۔ میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی۔ جب کسی کا نام لیا جاتا ہے تو گویا اس کو بلند و بالا کرتے ہیں تاکہ وہ آنکھوں میں جچ جائے۔ اسم کی جمع اسماء ہے بعض کے نزدیک اس کا مادہ وسم ہے جس کے معنی علامت کے ہیں اور واؤ ہمزہ سے بدل گئی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے، عربی زبان کا عام ضابطہ ہے کہ کسی لفظ کے مادہ کے اصلی حروف تصغیر میں ظاہر کردیئے جاتے ہیں اس قاعدہ کے موافق اگر اسم مادہ وسم سے قرار دیا جائے تو اس کا اسم تصغیر وسم اور جمع اوسام ہوگی مگر ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی تصغیر سمی اور جمع اسماء ہے جو قاعدہ کے موافق ہے۔ لہذا اسم سمو سے مشتق ہے کہ نہ کہ وسم سے۔ بسم۔ میں اسم کا الف کثرت استعمال کے باعث ساقط ہوگیا ہے اور اس کے بدلے میں ب لمبی لکھی جاتی ہے۔ بسم اللّٰہ میں ب کا تعلق فعل سے ہے یا اسم سے جو ہر دو یہاں محذوف ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ستعمال دونوں طرح کیا ہے۔ متعلق اسم ہونے کی صورت میں عبارت کچھ یوں ہوگی بسم اللّٰہ ابتدائی (اللہ کے نام سے تیری ابتداء ہے) ۔ قرآن مجید میں اس کی مثال۔ وقال ارکبوا فیہا بسم اللّٰہ مجرمھا ومرسھا (11:41) سوار ہوجاؤ کشتی میں اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور اللہ کے نام سے اس کا ٹھیرنا ہے۔ متعلق فعل کی صورت میں عبارت یوں ہوگی۔ ابدا بسم اللّٰہ (میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ قرآن مجید میں اس کی مثال اقرا باسم ربک۔ (96:1) پڑھ اپنے رب کے نام سے۔ اللّٰہ۔ اللہ کا لفظ خداوند تعالیٰ کے لئے بطور اسم ذات آیا ہے یہ کسی خاص صفت کے لئے نہیں بولا جاتا۔ باقی تمام صفات خداوندی اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ نزول قرآن سے پہلے بھی اللہ کا لفظ خداوند تعالیٰ کے لئے بطور اسم ذات کے مستعمل تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ترجمان القرآن (از مولانا آزاد) ۔ الرحمن الرحیم ط : یہ دونوں نام رحمۃ سے مشتق ہیں، دونوں میں مبالغہ ہے رحمن کے معنی میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اس میں رحیم کی نسبت ایک حرف زائد ہے اور زیادۃ اللفظ تدل علی زیادۃ المعنی یعنی زائد حروف زیادۃ معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ رحمن کا لفظ اللّٰہ کی طرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے اور اس کی دلیل یہ آیت شریفہ ہے : قل ادعوا اللّٰہ ادادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسمآء الحسنی (17:11) کہہ دو تم (خدا کو) اللہ (کے نام سے) پکارو یا رحمن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔ بخلاف اس کے رحیم کا لفظ ماسوی اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے مثلاً رسول کریم ﷺ کو رؤف رحیم، کہا گیا ہے آیۃ شریفہ ہے لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم باالمومنین رء وف الرحیم ۔ (6:128) (لوگو) تمہارے پاس تمہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے انہیں بہت گراں گزرتی ہے تمہاری (بھلائی) کے حریص ہیں ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمن اور آخرت میں رحیم ہے کہ دنیا میں مومن اور کافر سب اس کی رحمت سے متمتع ہوتے ہیں اور آخرت میں رحمت سے فائدہ اٹھانے والے صرف مومن ہوں گے۔ اس بارے میں اور بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ گرامر کے لحاظ سے الرحمن الرحیم ۔ کی دو صورتیں ہیں (1) یہ اللہ کی صفت ہیں اس صورت میں ترجمہ ہوگا اللہ کے نام سے جو کہ رحمن اور رحیم ہے (2) یہ اللہ کا بدل ہے اور ترجمہ ہے اللہ رحمن و رحیم کے نام سے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ بسم اللّٰہ کی بؔ کا تعلق اسم (محذوف) سے ہے یا فعل (محذوف) سے۔ اول الذکر کی صورت میں یہ جملہ اسمیہ ہوگا اور مؤخر الذکر کی صورت میں جملہ فعلیہ اس کی ترکیب نحوی کچھ یوں ہوگی۔ ب۔۔ حرف جار اسم ۔۔ مضاف اللہ ۔۔ مضاف الیہ موصوف موصوف صفت مل کر مضاف مضاف الیہ مل کر جار مجرور مل کر متعلق الرحمن ۔۔ صفت اول صفت مضاف الیہ مجرور فعل الرحیم۔۔ صفت تانی ابدا ۔۔ فعل (محذوف) انا۔۔ ضمیر فاعل مستتر ورفعل محذوف) پس فعل اپنے فاعل اور تعلق فعل سے مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ کیا بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم قرآن مجید کا حصہ ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ مکہ اور کوفہ کے قاری اسے قرآن مجید کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء کا کہنا ہے کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں (شوکانی زیر آیت 1:1) مؤخر الذکر قراء کے ایک گروہ کا خٰال ہے کہ یہ آیت سورة فاتحہ کا حصہ ہے باقی سورتوں کا نہیں۔ جو اس کو سورة فاتحہ کا حصہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک یہ ایک مکمل آیت ہے لہذا اس کو علیحدہ نمبر دیتے ہیں اور باقی آیات کی تعداد چھ شمار کرکے کل سات آیات (سبع مثانی) مکمل کرتے ہیں اور جو اسے سورة فاتحہ کا حصہ شمار نہیں کرتے ہو آیت صراط الذین انعمت علیہم 5 غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ۔ میں انعمت علیہم پر وقف کرکے علیحدہ آیت نمبر 6 شمار کرتے ہیں ۔ جبکہ اول الذکر گروہ اسے ایک ہی آیت شمار کرتا ہے۔
Top