Anwar-ul-Bayan - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
انصاف کے دن کا حاکم
(2:3) مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔ مٰلِكِ مضاف يَوْمِ الدِّيْنِ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ، لہذا مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ صفت چہارم ہے اللہ کی۔ بعض کے نزدیک یہ اللہ کا بدل ہے صفت نہیں کیونکہ اللہ معرفہ ہے۔ اور یہ نکرہ۔ اس کے نکرہ ہونے کی وجہ سے یہ ہے کہ اسم فاعل جب حال یا مستقبل کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے تو مضاف الی المعرفہ بھی معرفہ نہیں بنتا۔ املائ، جزا و حساب کے دن کا مالک۔ يَوْمِ الدِّيْنِ کی قرآن مجید میں یوں وضاحت کی گئی ہے۔ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ 17 ۝ ۙثُمَّ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ 18۝ۭيَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ 19۝ۧ (82:17-19) جس دن کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آسکے گا اور حکم تمام تر اس روز صرف اللہ ہی کا ہوگا۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں : يَوْمِ الدِّيْنِ : قیامت کا دن ہے دین۔ جزاء اور بدلے کو کہتے ہیں اور کَمَا تُدِینُ تُدَانُ دین ہی سے مشتق ہے (یعنی جیسے تو فعل کرے گا ویسا ہی بدلہ لے گا۔۔ یا لفظ دین سے اسلام اور اطاعت مراد ہے کیونکہ وہ ایسا دن ہے کہ جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہ دیگی۔ مجاہد کہتے ہیں کہ يَوْمِ الدِّيْنِ بمعنی يَوْمُ الحِسَاب ہے چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یعنی یہ سید ھا حساب ہے۔
Top