Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر (انشاء اللہ کہہ کر یعنی اگر) خدا چاہے تو (کردوں گا) اور جب خدا کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے۔
(18:24) الا ان یشاء اللہ میں الا حرف استثناء ہے تقدیر کلام یوں ہے۔ الا ان تقول ان شاء اللہ۔ الا۔ تو یہ بھی کہے کہ اگر اللہ نے چاہا۔ نسیت۔ ماضی واحد مذکر حاضر۔ نسیانمصدر۔ تو بھول جاوے۔ (یعنی انشاء اللہ کہنا بھول جاوے۔ یا اللہ کا نام لینا بھول جاوے) عسی ان یھدین عسی افعال مقارب میں سے ہے۔ عنقریب ہے، ممکن ہے، توقع ہے۔ ان حرف ناصب فعل مستقبل یھدین مضارع منصوب۔ بوجہ عمل ان۔ ھدایۃ سے۔ ن وقایہ اور یمتکلم محذوف کہ وہ مجھے ہدایت کر دے۔ میری رہنمائی کردے۔ لاقرب من ھذا۔ اس سے بھی قریب تر ۔ اقرب افعل التفضیل کا صیغہ ہے ھذا کا اشارہ اصحاب کہف کے قصہ کی طرف ہے یا اس کا اس بات کی طرف اشارہ ہے جس کے متعلق انشاء اللہ کہنا بھول جائے۔ رشدا۔ باعتبار رشدو ہدایت کے۔ واذکر ربک اذا نسیت وقل عسی ان یھدین ربی لاقرب من ھذا رشدا اگر تم زبان سے (انشاء اللہ کہنا) بھول جائو یا تم بھولے سے ایسی بات زبان سے نکالو یعنی بغیر انشاء اللہ کہے انی فاعل ذلک غدا کہہ دو تو فورا اپنے رب کو یاد کرو (یعنی انشاء اللہ کہو) اور (مزید یہ بھی ) کہو کہ امید ہے کہ میرا رب میری رہنمائی فرمائے گا ایسی بات کی طرف جو اس موجودہ معاملہ میں رشد سے قریب تر ہو۔ اس صورت میں آیات 23 اور 24 بطور جملہ معترضہ ہیں اور اصحاب کہف کا ذکر آیت 24 سے آگے 25 میں جاری ہے۔ (تفہیم القرآن) صاحب بیان القرآن رقمطراز ہیں :۔ اور جب آپ (اتفاقاً انشاء اللہ تعالیٰ کہنا) بھول جاویں (اور پھر کبھی یاد آوے تو اس وقت انشاء اللہ تعالیٰ کہہ کر) اپنے رب کا ذکر کرلیا کیجئے (یعنی جب یاد آوے کہہ لیا کیجئے اور یہ حکم افادۂ برکت کے اعتبار سے ہے جو کہ وعدوں میں مقصود ہے تعلیق وابطال اثر کے لحاظ سے نہیں ہے جو کہ طلاق وعتاق ویمین وغیرہ میں مقصود ہے پس اس میں متصل کہنا ابطال اثر میں مفید ہوگا اور منفصل کہنا مفید نہ ہوگا) اور (ان لوگوں سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (تم نے جو امتحان نبوت کے لئے اصحاب کہف کا قصہ مجھ سے پوچھا تھا جس کا جواب دینا میری نبوت کے دلائل میں سے ہے سو یہ نہ سمجھا جائے کہ میرے نزدیک اس سوال کا جواب دینا اعظم الدلائل اور سرمایہ نازوافتخار ہے جیسا کہ تم نے اس قصہ کو عجیب تر سمجھ کر پوچھا ہے اور اس کے جواب کو اعظم الدلائل سمجھتے ہو سو چونکہ یہ قصہ اعجب الآیات نہیں جیسا کہ تمہید قصہ میں بھی فرمایا گیا ہے : ام حسبت۔۔ الخ (آیت 9) اس لئے میرے نزدیک دلالۃ علی النبوۃ میں سب سے اعظم واقرب نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ میری نبوت ایسا امر محقق ومتقین ہے کہ اس پر استدلال کرنے کے لئے جس دلیل کو تم اعظم سمجھتے ہو میں اس سے بھی اعظم دلیلیں اس پر رکھتا ہوں۔ چناچہ ان میں سے بعض دلائل تو وقتاً فوقتاً تمہارے روبروپیش کرچکا ہوں مثل اعجاز قرآن وغیرہ کے جو یقینا اس سوال کے کہ گو میرے اعتبار سے وہ معجزہ ہے لیکن عالم بالنقل بھی ایسے سوالات کا جواب دے سکتا ہے اور بعضے ایسے دلائل کی نسبت ) مجھ کو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (نبوۃ) کی دلیل بننے کے اعتبار سے اس (قصہ) سے بھی نزدیک تربات بتلا دے (چنانچہ اصحاب کہف سے بھی زیادہ جن کا زمانہ قدیم تھا۔ اور جن کے اخبار کا پتہ نہ چل سکتا تھا وہ وحی سے بتلائے گئے کہ وہ یقینا اس قصہ کے جواب سے اخبار عن الغیب میں زیادہ عجیب و غریب ہیں۔
Top