Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
(18:9) أم۔ أم حرف عطف ہے اس کی دو قسمیں ہیں متصل۔ منقطع۔ متصل وہ ہے جس کے پہلے ہمزہ تسویہ (سواء کا ہمزہ) آئے جیسے سواء علیہم انذرتہم ام لم تنذرہم (2:6) یا اس سے پہلے ہمزہ استفہام ایسا آئے جس کو أم کے ساتھ ملانے سے تعیین و تخصیص مطلوب ہو مثلاً : أزید عندک أم عمرو یا جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے أ الذکرین حرم ام الانثیین (6:143) اس کو متصل اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا ماقبل اور مابعد دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ منقطعہ جو متصل کے خلاف ہو۔ جیسے ام جعلوا للہ شرکاء (13:16) ام منقطعہ کے وہ معنی جو اس سے کبھی جدا نہیں ہوتے ” اضراب “ ہے (اضراب یعنی پہلی بات سے اعراض کرنا) ۔ ام۔ کئی معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً یا۔ خواہ۔ کیا۔ اور کبھی بمعنی بل استعمال ہوتا ہے۔ اور کبھی بل اور ہمزہ استفہام کے لئے آتا ہے۔ جیسا جمہور کے قول کے مطابق آیہ ہذا میں ہے ۔ اس صورت میں ام حسبت ای بل أحسبت تو کیا تو خیال کرتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ ام منقطعہ کی مستقل خصوصیت اضراب یعنی پہلی بات سے اعراض ہے۔ اوپر آیات 7:8 میں زمین کو پیدا کرنے اور پھر روئے زمین پر زینت و آرائش کے مختلف سامانوں کے پیدا کرنے اور پھر اس کائنات کی ساری رعنائیوں اور دلفریبیوں کو فنا کر کے بےآب وگیاہ چٹیل میدان میں تبدیل کرنے کا ذکر ہے اور آیۃ 9 میں اصحاب کہف والرقیم کے قصہ کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے کہ جس ذات والا صفات کے قبضۂ قدرت میں تخلیق ارض وسماوات بمعہ ان کے جملہ لوازمات ہے کیا اس کا اصحاب کہف کو کچھ مدت کے لئے ان پر نیند طاری کر کے مرور وقت سے بیخبر رکھ کر دوبارہ اٹھا کر کھڑنا تعجب کی بات ہے ؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس تخلیق کے مقابلہ میں یہ بات تو بالکل معمولی اور حقیر سی ہے۔ ام۔ بعض دفعہ زائدہ بھی آتا ہے جیسے افلا تبصرون ام انا خیر (43:51 ۔ 52) اس عبارت کی تقدیر یوں ہے افلا تبصرون انا خیر۔ (کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں بہتر ہوں) ۔ لغت ِ یمن میں ام ال کے بدل میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً لیس من امبر أمصیام فی امسفر۔ ای لیس من البر الصیام فی السفر (سفر میں روزہ رکھنا خاص نیکی نہیں) ۔ الکہف۔ پہاڑ میں وسیع غار کو کہف کہتے ہیں۔ اس کی جمع کھوف ہے۔ الرقیم۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں : (1) بعض کے نزدیک اصحاب کہف کے کتے کو رقیم کہتے ہیں۔ جیسا کہ امیہ بن صلت کا قول ہے۔ (2) الرقیم۔ روم میں ایک قریہ کا نام ہے الضحاک۔ (3) یہ اس پہاڑی کا نام ہے جس میں الکہف ہے۔ (4) الرقہم بروزن فعیل بمعنی مفعول ہے نوشتہ۔ تحریر۔ لکھی ہوئی عبارت۔ قرآن میں اور جگہ آیا ہے کتاب مرقوم (83:9، 20) ایک لکھی ہوئی کتاب۔ لہٰذا الرقیم وہ لوح جس پر اصحاب کہف کے نام۔ ان کا حسب ونسب ۔ ان کا قصہ اور ان کے خروج کے اسباب تحریر ہیں اور جو ان کے مدفن پر لگائی گئی ہے۔ بعض کے نزدیک اصحاب کہف اور اصحاب رقیم دو مختلف طائفہ ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ ایک ہی گروہ تھا۔ اور لفظ اصحاب کی اضافت دواشیاء کی طرف کی گئی ہے کیونکہ قرآن میں صرف اصحاب کہف کا ہی تذکرہ ہے اصحاب الرقیم کا الگ کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ عجبا۔ مصدر ہے بمعنی عجیب بطور صفت کے آیا ہے اور یہ عجیب ہے زیادہ بلیغ ہے اس کا موصوف محذوف ہے۔ ای ایۃ او شیئا عجبا۔ تعجب خیز آیت یا شئے۔ اصحاب الکہف والرقیم۔ اسم کانوا فعل ناقص۔ حسبت عجبا۔ کانوا کی خبر۔ من ایتنا حال ہے۔ ترجمہ یوں ہوگا۔ تو کیا تو خیال کرتا ہے کہ اصحاب الکہف والرقیم ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز شے تھے۔
Top