Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو (حق وباطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو
(2:185) شھر رمضان مضاف مضاف الیہ مل کر مبتداء ۔ الذی انزل فیہ القرآن میں الذی موصول اور انزل فیہ القرآن صلہ اپنے موصول کا۔ صلہ و موصول مل کر مبتداء کی خبر۔ ھدی للناس حال ہے قرآن سے یعنی نازل کیا گیا اس ماہ میں قرآن درآنحالیکہ وہ سراپا ہدایت ہے لوگوں کے لئے اور (اس میں) روشن دلیلیں ہیں ہدایت کی (وبینت من الھدی) اور یہ حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے (والفرقان) تینوں قرآن سے حال ہیں اور 2 و 3 کا عطف ھدی 1 پر ہے۔ ھدی۔ اسم ومصدر (باب ضرب) ہدایت، ہدایت کرنا۔ بینت جمع بینۃ واحد۔ کھلی دلیل۔ واضح دلالت۔ الفرقان۔ مصدر بھی ہے یعنی الگ الگ کرنا ۔ حق کو باطل سے جدا کرنا۔ اور صیغہ صفت بھی ہے یعنی حق کو باطل سے جدا کردینے والی شے۔ آیت ہذا میں وہ دلائل مراد ہیں جو حق کو باطل سے جدا کردینے والی ہیں اس کے علاوہ یہ لفظ قرآن مجید میں قرآن ، توراۃ، دلیل و حجت کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ فمن شھد منکم الشھر۔ جملہ شرطیہ ہے اور فلیصمہ جواب شرط شھد ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے شھود مصدر سے بمعنی پانا۔ شھادۃ مصدر سے شھد بمعنی شہادت دینا ہے۔ الشھر میں الف لام عہد کا ہے مراد رمضان کا مہینہ ہے۔ فلیصمہ میںجواب شرط کے لئے ہے۔ لیصم امر کا صیغہ واحد مذکر غائب صوم مصدر (باب نصر) ہ ضمیر واحد مذکر غائب مفعول فیہ۔ اور اس کا مرجع الشھر ہے پس وہ اس کے (رمضان کے مہینے کے) روزے رکھے۔ من ایام اخر۔ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا۔ الیسر۔ الیسر کے معنی آسانی اور سہولت کے ہیں اور یہ العسر کی ضد ہے قرآن مجید میں ہے سیجعل اللہ بعد عسر یسرا (165:7) خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا۔ العسر۔ تنگی، سختی۔ الیسر کی ضد ہے۔ ولتکملوا العدۃ۔ صاحب تفسیر مظہری اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں (اور تاکہ تم گنتی پوری کرو) العدۃ میں الف لام مضاف الیہ کے عوض ہے تقدیر عبارت کی یوں ہے عدۃ شھر رمضان بقضاء ما افطر منہ (یعنی تاکہ ماہ رمضان کی شمار افطار کئے ہوئے روزوں کو قضاء کرکے پوری کرلو ۔۔ ولتکملوا العدۃ کا مع اپنے معطوف ولتکبروا ۔۔ الخ کے الیسر پر عطف ہے (یا تو) اس وجہ سے کہ الیسر باعتبار معنی کے ماقبل کی علت ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے یہ احکام یعنی مریض اور مسافر کے لئے افطار کو مباح کرنا اور مرض کے ایام کی قدرو قضا واجب کرنا اس لئے مشروع کردیئے تاکہ تم پر سہولت ہو اور تاکہ تم ماہ رمضان کے دنوں کی گنتی افطار کئے ہوئے روزوں کی قضاء کرکے پوری کرلو ۔۔ الخ یا لتکملوا ۔۔ (اس کے بعد اس آیت کی دیگر صورتیں بیان کی گئی ہیں) ۔ اس صورت میں آیت یرید اللہ ۔۔ لعلکم تشکرون کا ترجمہ ہوگا اور اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی کرنی اور نہیں چاہتا تمہارے لئے دشواری اور (چاہتا ہے کہ) تم گنتی پوری کرلیا کرو (افطار روزوں کی قضا پوری کرکے) اور اللہ کی بڑائی بیان کیا کرو۔ اس بات پر کہ اس نے تم کو سیدھی راہ دکھائی اور تاکہ تم احسان مانو (یعنی تاکہ تم روزہ کے واجب ہونے پر شکر کرو اس لئے کہ وہ درجات کے ملنے کا ذریعہ ہے اور مریض اور مسافر کے لئے افطار کے مباح ہونے پر شکر کرو کہ اس میں تمہارے لئے تخفیف اور رخصت ہے۔ تکملوا تم پورا کرو، تم مکمل کرو۔ اکمال (افعال) مصدر۔ سے مضارع جمع مذکر حاضر نون اعرابی لام کے آنے سے حذف ہوگیا۔ لعلکم تشکرون کا عطف لتکبرو اللہ پر ہے۔ رمضان۔ رمض کا مصدر ہے جو جلنے اور سوختہ ہونے کے لئے آتا ہے پھر اس کی طرف شھر کی اضافت کی گئی۔ اور اسے علم قرار دیا گیا۔ اس ماہ کو رمضان سے یا تو اس لئے موسوم کیا گیا کہ اس ماہ میں بھوک پیاس کی سوزش سے روزہ دار سوختہ ہوجاتا ہے یا اس لئے کہ گناہ اس میں جل جاتے ہیں اور یا اس لئے کہ جب لوگوں نے قدیم زبان سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو یہ مہینہ سخت تمازت کے زمانہ میں واقع ہوا۔ (بیضاوی) لیکن صحیح یہ ہے کہ علم تقویم میں یہ قمری سال کے ایک مہینہ کا نام ہے۔
Top