Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا ؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے ؟
(24:12) لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنت بانفسہم خیرا۔ جب تم نے یہ (افواہ افک) سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے کیوں نہ اپنون کے حق میں نیک گمان کیا۔ ضیاء القرآن میں ہے :۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو عتاب فرما رہے ہیں اور سرزنش کر رہے ہیں کہ تم نے سنتے ہی اس بہتان کی تردید کیوں نہ کردی اس میں تردد کی غلطی کیوں کی تمہیں تو فورا کہہ دینا چاہیے تھا۔ ھذا افک مبین۔ یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ بانفسہم سے مراد بعض نے باخوانہم واھل دینہم لیا ہے یعنی جب تم نے یہ افواہ سنی تو کیوں نہ مومنین اور مومنات نے اپنے دینی بھائیوں (حضرت عائشہ ؓ اور حضرت صفوان بن معطل) کے متعلق نیک گمان کیا۔ بانفسہم بمعنی اپنے دلوں میں۔ ازخود۔ اپنے اعتماد نفس کی بنا پر اور اپنے ساتھ نیکی کا گمان کر کے۔ بھی لیا گیا ہے (حقانی، مولانا ابوالکلام آزاد) یعنی جب تم نے یہ افواہ سنی تو کیوں نہ مومن مردوں (مثلاً حسان بن ثبت۔ مسطح بن اثاثہ) اور مومن عورتوں (مثلاً حمنہ بنت حجش ) نے خود ہی اپنے اعتماد نفس کی بناء پر اور اپنے ساتھ نیکی کا گمان کر کے کہہ دیا کہ یہ تو کھلی ہوئی تہمت ہے۔
Top