Al-Qurtubi - An-Noor : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
کیا یہ زمانہ جاہلیت کے حکم کے خواہشمند ہیں ؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے ؟
آیت نمبر : 50۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” افحکم الجاھلیۃ یبغون “۔ افحکم “۔ پر نصب یبغون کی وجہ سے ہے معنی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ شریف کا حکم وضیع (گٹھیا) کے حکم کے خلاف کرتے تھے جیسا کہ کئی جگہ گزر چکا ہے، یہود ضعیف اور فقراء پر حدود قائم کرتے تھے اور طاقتور اغنیاء پر حدود قائم نہیں کرتے تھے پس وہ اس فعل میں جاہلیت کے مشابہ تھے، مسئلہ نمبر : (2) سفیان بن عیینہ نے ابن ابی نجیح سے انہوں نے طاؤس سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا : جب ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ اپنی بعض اولاد کو بعض پر ترجیح دیتا ہے تو وہ یہ آیت پڑھتے تھے : (آیت) ” افحکم الجاھلیۃ یبغون “۔ طاؤوس کہتے تھے : کسی کے لیے جائز نہیں کہ بعض اولاد کو بعض پر ترجیح دے، اگر وہ ایسا کرے گا تو نافذ نہ ہوگا اور فسخ ہوگا، اہل ظاہر نے یہی کہا ہے۔ امام احمد بن حنبل سے اسی طرح مروی ہے۔ ثوری، ابن المبارک اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے اس کو مکروہ کہا ہے، اگر کوئی ایسار کرے گا تو اس کا فیصلہ نافذ ہوگا اور رد نہیں کیا جائے گا، امام مالک، ثوری، امام شافعی اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم نے اس کی اجازت دی ہے اور انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے فعل سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کو دوسروں سے زیادہ دیا تھا اور نبی مکرم ﷺ کے ارشاد : فارجعہ (اس بیٹے سے واپس لے لے) اور فاشھد علی ھذا غیری میرے علاوہ کسی دوسرے کو گواہ بنا۔ سے استدلال کیا ہے اور پہلے مسلک کے علماء نے نبی مکرم ﷺ نے بشیر کو جو فرمایا تھا اس سے استدلال کیا ہے آپ نے فرمایا تھا :” اس کے علاوہ تیری اولاد ہے “ اس نے کہا : ہاں۔ فرمایا : ” کیا تو نے سب کو اس طرح ہبہ کیا ہے “ اس نے کہا : نہیں۔ فرمایا : ” پھر مجھے گواہ نہ بنا میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا “۔ ایک روایت میں ہے ” میں گواہ نہیں بنتا مگر صرف حق پر “۔ علماء نے فرمایا : جو طلم اور غیر حق ہو وہ باطل ہے جو جائز نہیں ہے اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ” اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا “۔ یہ شہادت کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس سے زجر کیا ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے اس کو جور کہا ہے اور اس میں گواہ بننے سے اجتناب کیا ہے پس مسلمانوں میں کسی کو اس پر گواہ بنانا بھی ممکن نہیں، رہا حضرت ابوبکر ؓ کا فعل، تو وہ نبی مکرم ﷺ کے قول کے معارج نہیں ہو سکتا شاید انہوں نے اپنی دوسری اولاد کو عطیہ دیا ہو جو اس کے برابر ہو۔ اگر کہا جائے کہ اصل انسان کا اپنے مال میں مطلقا تصرف کرنا ہے، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اصل کلی اور معینۃ واقعہ اس اصل کے مخالف ہے ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے جیسے عموم اور خصوص ہوتا ہے اصول میں ہے کہ صحیح خاص پر عام کی بنا ہے، پھر یہ اس نافرمانی کا باعث ہوتا ہے جو بہت برا گناہ ہے اور یہ حرام ہے اور جو حرام تک لے جائے وہ ممنوع ہے اسی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو “۔ نعمان نے کہا : میرے باپ نے رجوع کیا اور وہ صدقہ لوٹا دیا، اور صدقہ کو باپ بالاتفاق واپس نہیں کرسکتا اور فارجعہ کا ارشاد فاردد کے معنی میں محمول ہے اور فسخ میں لوٹانا ظاہر ہے جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” جس نے کوئی ایسا علم کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ رد ہے یعنی مردود اور منسوخ ہے “ یہ ظاہر اور قوی ہے اور منع میں واضح ترجیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) ابن وثاب اور نخع نے کہا : (آیت) ” افحکم “ کو رفع یبغون کی بنا پر ہے ضمیر کو حذف کیا گیا جس طرح ابو النجم نے اپنے قول میں حذف کیا ہے۔ : قد اصبحت ام الخیار تدعی علی ذنبا کلہ لم اصنع : کلہ کو رفع کے ساتھ روایت کیا گیا ہے تقدیر عبارت اس طرح ہونا بھی جائز ہے افحکم الجاھلیۃ حکم یبغونہ “ پھر موصوف کو حذف کیا گیا : حسن، قتادہ، اعرض، اور اعمش، نے (آیت) ” افحکم “ کو حا اور کاف کے نصب اور میم کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، یہ جماعت کی قرات کے معنی کی طرف راجع ہے، کیونکہ نفس حکم مراد نہیں ہے اس سے مراد حکم ہے گویا فرمایا ” افحکم حکم الجاھلیۃ یبغون “ کبھی حکم اور حاکم لغت میں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں اور وہ اس سے مراد کاہن اور دوسرے جاہلیت کے حکام لیتے ہیں حکم سے مراد عموم اور جنس ہے، کیونکہ اس سے متعین حاکم مراد نہیں لیا گیا، مضاف کا جنس واقع ہونا جائز ہے جیسا کہ ان کے قول میں جائز ہے : منعت مصرادبھا وشبھہ۔ ابن عامر نے تبغون تا کے ساتھ اور باقی قراء نے یا کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون “۔ یہ انکار کی جہت سے استفہام ہے یعنی لا احد احسن۔ یہ مبتدا خبر ہے حکما پر نصب بیان کی بنا پر ہے (آیت) ” لقوم یوقنون “ یعنی عند قوم یوقنون۔
Top