بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
(29:1) احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لایفتنون۔ ہمزہ استفہام انکاری ہے حسب (ماضی بمعنی حال) حسبان مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب حسب یحسب (سمع) وحسب یحسب (حسب) سے بمعنی گمان کرنا۔ خیال کرنا۔ حسب افعال قلوب میں سے ہے افعال قلوب متعدی بدو مفعول استعمال ہوئے ہیں ۔ الناس اسم جمع۔ قافل۔ (کیا لوگ خیال کرتے ہیں) ۔ ان یترکوا میں ان مصدریہ ہے یترکوا مضارع مجہول جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور ضمیر مفعول مالم یسم فاعلہ کا مرجع الناس ہے (کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے۔ اور یہ جملہ حسب کا مفعول اول ہے۔ ان یقولوا۔ میں بھی ان مصدریہ ہے بتقدیر لام یہ حسب کا مفعول ثانی ہے۔ امنا۔ ایمان سے باب افعال۔ ماضی کا صیغہ جمع متکلم ۔ ہم ایمان لائے۔ وہم لایفتنون ۔ ضمیر یترکوا سے حال ہے۔ گویا تقدیر کلام ہے احسبوا ترکہم غیر مفتونین لقولہم امنا کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا چھٹکارا بغیر کسی آزمائش کے (محض) بوجہ ان کے قول کے کہ ” ہم ایمان لے آئے “ ہوجائے گا۔ یعنی کسی کا صرف یہ کہنا کہ میں مومن ہوں کافی نہیں جب تک کہ اس کو آزمائش کی کسوٹی پر نہ پرکھا جائے۔ اسی مضمون میں ارشاد الٰہی ہے :۔ ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یؤتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم البأساء والضراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین امنوا معہ متی نصر اللہ الا ان نصر اللہ قریب (2:214) کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے درآں حالیکہ (ابھی ) تم پر ان لوگوں کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں انہیں تنگی اور سختی پیش آئی اور انہیں ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ پیغمبر اور جو لوگ ان کے ہمراہ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی امداد ( آخر) کب آئے گی۔
Top