Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 37
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ١ۖۚ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الَّيْلُ ښ : رات نَسْلَخُ : ہم کھینچتے ہیں مِنْهُ : اس سے النَّهَارَ : دن فَاِذَا : تو اچانک هُمْ : وہ مُّظْلِمُوْنَ : اندھیرے میں رہ جاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کے لئے رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے
(36:37) وایۃ لہم الیل وائو عطف کی ہے ایۃ مبتدا لہم متعلق ایۃ اور الیل خبر۔ یا الیل مبتدا اور ایۃ لہم خبر مقدم۔ الیل سے مراد کوئی خاص رات نہیں بلکہ جنس شب مراد ہے اور ان کے لئے رات (خدا کی قدرت کی ) ایک نشانی ہے۔ نسلخ مضارع جمع متکلم سلخ مصدر (باب نصرو فتح) میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھینچ گئی اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گذر جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے فاذا انسلخ الاشھر الحرم (9:5) جب حرمت والے مہینے گذر جائیں۔ اور نسلخ منہ النھار کے معنی ہوئے ہم اس میں سے دن کو کھینچ لیتے ہیں۔ اصل تاریکی ہے۔ سورج نکلنے سے تاریکی پر دن کی روشنی کا خول رات کی تاریکی پر چڑ ھ جاتا ہے سورج کے کے غروب ہونے پر گویا وہ روشنی کا خول اتر جاتا ہے اور رات کی تاریکی پھر نمودار ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح رات اور دن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ فاذا میں الفا برائے عطف سببی ہے اذا مفاجاتیہ ہے۔ مظلمون۔ ای داخلون فی الظلام۔ تاریکی میں چلے جاتے ہیں۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اظلام (افعال) مصدر بمعنی تاریکی میں ہوجانا۔ تاریک ہوجانا۔ ظلم مادہ۔ تاریکی۔ قرآن مجید میں ہے واذا اظلم علیہم قاموا۔ (2:20) اور جب اندھیرا ہوجاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ فاذا ہم مظلمون تو وہ یک لخت اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔
Top