Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو تمہارے آگے اور جو تمہارے پیچھے ہے اس سو ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
(36:45) اتقوا۔ فعل امر، جمع مذکر حاضر ، تم ڈرو، پرہیزگاری اختیار کرو، اتقاء (افتعال) مصدر۔ وقی مادہ۔ (لفیف مفروق) افتعلوا کے وزن پر اصل میں او تقیوا تھا۔ وائو کو ت میں بدلا۔ ت، ت میں مدغم ہوئی یا مضموم ما قبل مکسور، یا کا ضمہ ق کو دیا پھر یاء اجتماع ساکنین سے گرگئی اتقوا ہوگیا۔ ما بین ایدیکم (جو تمہارے سامنے ہے) وما خلفکم (اور جو تمہارے پیچھے ہے) اس کے مندرجہ ذیل معانی ہوسکتے ہیں :۔ (1) اس دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب۔ یا اس کے برعکس۔ (2) سماوی وارضی بلیات، جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے : اولم یروا الی ما بین ایدیہم وما خلفہم من السماء والارض (34:9) (3) قتادہ کا قول ہے ما بین ایدیہم سے مراد وہ بربادی اور تباہی کے واقعات جو گذشتہ امتوں کو پیش آئے۔ اور ما خلفہم سے مراد ہے عذاب آخرت، (4) بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد اگلے پچھلے گناہ ہیں۔ (5) وہ عذاب جو تمہارے سامنے ہے اور وہ جو تمہیں مستقبل میں ملے گا۔ کچھ بھی ہو مطلب اس کا یہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے ڈرو اور ان اعمال سے پرہیز کرو جن پر یہ عذاب مرتب ہوتا ہے۔ لعلکم ترحمون۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یہ غایت ہے اتقوا کی۔ آیت میں ما موصولہ ہے۔ الفائدہ : اذا قیل کا جواب محذوف ہے، یعنی جب ان سے یہ بات کہی جاتی ہے تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔ اگلی متصل آیت اس جواب کو محذوف قرار دینے کا قرینہ ہے۔
Top