Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 49
مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ
مَا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک تَاْخُذُهُمْ : وہ انہیں آپکڑے گی وَهُمْ : اور وہ يَخِصِّمُوْنَ : باہم جھگڑ رہے ہوں گے
یہ تو ایک چنگھاڑ کے منتظر ہیں جو ان کو اس حال میں کہ باہم جھگڑتے ہوں گے آپکڑے گی
(36:49) ما ینظرون۔ ای ما ینتظرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں۔ صیحۃ واحدۃ۔ چیخ۔ کڑک، ہولناک آواز، چنگھاڑ۔ صاح یصیح (ضرب) کا مصدر۔ بمعنی حاصل مصدر بھی آتا ہے۔ اصل میں لکڑی کے چرونے یا کپڑے کے پھٹنے سے جو زور کے جھراٹے کی آواز پیدا ہوتی ہے اس آواز کے نکلنے کو الصیاح کہتے ہیں۔ صیحۃ اسی سے ہے چونکہ زور کی آواز سے آدمی گھبرا اٹھتا ہے اسی لئے بمعنی گھبراہٹ اور عذاب کے بھی استعمال ہوتا ہے (نیز ملاحظہ ہو (36:29) ۔ یہاں صیحۃ سے مراد النفخۃ الاولی پہلی مرتبہ صور کا پھونکا جانا ہے جب سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ صیحۃ واحدۃ موصوف وصفت ہیں اور صیحۃ منصوب بوجہ ینظرون کے مفعول ہونے کے ہے۔ اور اس کی تنوین اظہار عظمت اور جلالت کے لئے ہے۔ تاخذہم۔ مضارع واحد مؤنث غائب، ضمیر فاعل صیحۃ کی طرف راجع ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ وہ ان کو آ لے گی۔ وہ ان کو آپکڑے گی۔ وہم یخصمون۔ وائو حالیہ ہے یخصمون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے اصل میں یختصمون تھا (افتعال) مصدر سے۔ تا کو ساکن کیا پھر تاء کو صاد میں بدلا۔ پھر صاد کو صاد میں مدغم کیا۔ خاء پر اجتماع ساکنین کی وجہ سے کسرہ دیا گیا یخصمون ہوگیا۔ دراں حالیکہ وہ اپنے معاملات میں جھگڑ رہے ہوں گے یعنی وہ بیخبر اپنے کسی کام میں منہمک ہوں گے کہ یکایک صور پھونکی جائے گی۔ اور سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔ الخصم کے معنی جھگڑنے کے لئے۔ کہا جاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصا کسی سے جھگڑا کرنا۔ قرآن مجید میں ہے وھو الد الخصام (2:204) اور وہ سخت جھگڑالو ہے۔ الاختصام (افتعال) ایک دوسرے سے جھگڑنا۔
Top