Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 66
وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَطَمَسْنَا : تو مٹا دیں (ملیا میٹ کردیں) عَلٰٓي : پر اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں فَاسْتَبَقُوا : پھر وہ سبقت کریں الصِّرَاطَ : راستہ فَاَنّٰى : تو کہاں يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھ سکیں گے
اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر (اندھا کر) دیں پھر یہ راستے کو دوڑیں تو کہاں دیکھ سکیں گے
(36:66) لو نشائ۔ جملہ شرطیہ۔ نشاء مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے شیء اور مشیئۃ مصدر (باب فتح) ہم چاہیں یا ہم چاہتے ہیں۔ لو نشاء اگر ہم چاہیں۔ اگر ہم چاہتے۔ لطمسنا۔ لام لو کے جواب میں آیا ہے طمس (باب ضرب) واطمس (افعال) علی طمس وطماسۃ مصدر۔ ہلاک کرنا۔ برباد کرنا۔ کسی چیز کا نشان مٹا دینا۔ کسی چیز کو جڑ سے مٹا دینا۔ ملیا میٹ کردینا۔ (اگر ہم چاہتے ) تو (ان کی آنکھوں کو) ملیا میٹ کردیتے (ایسا کہ ان کا نشان تک مٹا دیتے) ۔ طمس فعل لازم ومتعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے (باب ضرب ونصر) سے (طموس مصدر) فنا کرنا یا فنا ہونا۔ مٹنا یا مٹانا۔ ستاروں کا اپنی چمک کھو دینا۔ جیسے واذا النجوم طمست (77:8) سو جس وقت کہ ستارے بےنور ہوجائیں گے۔ لطمسنا علی اعینہم کی تفسیر میں علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں :۔ ان ظاہری آنکھوں کو ایسا مٹا دیتے کہ نہ پپوٹا کا نشان رہتا نہ آنکھوں کا شگاف۔ طمس کا یہی معنی ہے۔ الطمس۔ ازالۃ الاثر بالمحو۔ یعنی کسی چیز کو یوں مٹا دینا کہ اس کا نشان باقی نہ رہے۔ فاستبقوا الصراط فا عاطفہ ہے اس جملہ کا عطف لطمسنا پر ہے الصراط کا نصب بوجہ نزع الخافض (جر دینے والے حرف کو حذف کرنا) ہے اصل میں استبقوا الی الصراط تھا۔ الی حرف جار کی وجہ سے جر تھی الی کے حذف ہونے پر کسرہ بھی گرگیا۔ اتصال فعل کی وجہ سے الصراط منصوب ہوگیا۔ الصراط کا نصب بوجہ ظرفیت نہیں کیونکہ الطریق کی طرح الصراط ایک مکان مختص ہے اور ایسی صورت میں الظرفیۃ کی وجہ سے نصب نہیں آتا۔ اگر استبقوا بمعنی ابتدروا (باہم سبقت کرنا) لیا جائے تو الصراط کا بوجہ مفعول بہ ہونے کے منصوب ہونا جائز ہے فاستبقوا ماضی جمع مذکر غائب استباق (افتعال) مصدر سے وہ سبقت کرتے وہ دوڑتے الصراط ایک خاص راستہ۔ یعنی وہ راستہ جس پر چلنے کے وہ عادی تھے۔ فاستبقوا الصراط۔ پھر وہ راستہ کی طرف دوڑتے۔ فانی یبصرون۔ انی استفہامیہ ہے بمعنی کیف ، یہاں بطور استفہام انکاری کے آیا ہے۔ کیونکر ۔ کیسے۔ یبصرون مضارع جمع مذکر غائب ابصار (افعال) مصدر بمعنی دیکھنا۔ پھر وہ کیسے دیکھ سکیں گے۔ دیکھ پائیں گے راستہ کو۔ مراد یہ کہ وہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ای فکیف یبصرون الطریق۔ ای لا یبصرون۔ انی جب بطور اسم ظرف زمان آئے تو بمعنی متی ہوتا ہے (جب) جس وقت کب، کس وقت) ۔ مثلاً فاتوا حرثکم انی شئتم۔ (2:223) سو تم اپنی کھیت میں آئو جب چاہو۔ اور جب بطور ظرف زمان کے آئے تو بمعنی این (جہاں، کہاں) آتا ہے مثلاً قال یمریم انی لک ھذا (3:37) حضرت زکریا (علیہ السلام) نے کہا) اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے ؟
Top