Anwar-ul-Bayan - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیگا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا خدا اس کو کفایت کرتے گا اللہ تعالیٰ اپنے کام کو جو کرنا چاہتا ہے کردیتا ہے خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے
(65:3) ویرزقہ من حیث لا یحتسب : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور یہ بھی جواب شرط ہے۔ وہ اس کو رزق دیتا ہے (اس میں ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے اور ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب من یتق اللہ میں من کی طرف راجع ہے) من حرف جار اور حیث (بمعنی جہاں۔ جس جگہ) اسم ظرف مکان مبنی برضمہ ہے۔ من حیث ایسی جگہ سے، جہاں سے ۔ لایحتسب مضارع منفی مجزوم (بوجہ جواب شرط) صیغہ واحد مذکر غائب احتساب (افتعال) مصدر۔ (جہاں سے ) وہ گمان بھی نہیں کرتا۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔ ” میں کہتا ہوں کہ :۔ رفتار آیت حضرت عوف کے قصہ کے موافق ہے اور سیاق عبارت کے مناسب حکم عام ہے۔ (یعنی مودر خاص اور حکم عام) اور جملہ معترضہ ہے۔ جملہ سابق حکم کی تائید کر رہا ہے ۔ اس صورت میں آیت کا مطلب اس طرح ہوگا۔ جو مرد اللہ سے ڈرتا ہے اللہ کو بلا قصور نہیں ستاتا اور ظلم نہیں کرتا۔ اگر عورت کی بدزبانی بد مزاجی اور نافرمانی کی وجہ سے طلاق دے دے۔ اور یہ طلاق حیض کی حالت میں بھی نہ ہو بلکہ طہر کی حالت میں دی گئی ہو اور عورت کی عدت لمبی کرکے اس کو ضرر پہنچانا بھی مقصود نہ ہو۔ (کہ جب عدت کے ختم ہونے کا وقت آجائے تو رجوع کرلے اور پھر طلاق دیدے اور پھر ختم عدت ک کے وقت رجوع کرلے اور پھر طلاق دیدے) اور عورت کو ایام عدت میں گھر سے نہ نکالے اور اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے تو اللہ اس کے لئے گناہ سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اس بدزبان عورت ، بد مزاج، نافرمان عورت کے بدلے فرمانبردار، نیک ، پرہیزگار ، بی بی عنایت فرما دیتا ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو عورت اللہ سے ڈرے اور خاوند کی حق تلفی نہ کرے بدزبانی سے پیش نہ آوے بےوجہ طلاق کی خواستگار نہ ہو بلکہ شوہر اگر اس کو دکھ پہنچاتا ہو تو صبر کرے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرے تو اللہ اس کے لئے راہ نجات نکال دیتا ہے اور اس کو بیگمان طریقہ سے رزق عطا فرماتا ہے اور ظالم و بدمزاج شوہر کے بجائے نیک حق شناس شوہر مرحمت فرما دیتا ہے “۔ فائدہ : بغوی نے بروایت مقاتل بیان کیا ہے کہ عوف بن مالک اسجعی کے بیٹے کے ہاتھ (دشمن کی کچھ) بکریاں اور سامان لگ گیا۔ وہ بکریاں اور سامان لے کر اپنے والد کے پاس واپس آگئے۔ حضرت عوف نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کردیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ چیزیں میرے لئے حلال ہیں جو بیٹا لے کر آیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ہاں (حلال ہیں) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے) جملہ شرط ہے فھو حسبہ جواب شرط ہے (تو وہ اس کو بس ہے، اس کو کافی ہے) ۔ حسبہ۔ مضاف مجاف الیہ۔ ہ ضمیر من کی طرف راجع ہے اور ھو کا مرجع اللہ ہے ۔ حسب : حسب یحسب (باب نصر) کا مصدر ہے بمعنی فاعل آیا ہے۔ بس ہے کافی ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وان یریدوا ان یخدعون فان حسبک اللہ (8:62) اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔ (یعنی خدا تمہارے لئے کافی ہے۔ اور واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم (2:206) اور جب اس سے کہا جاتا ہے ہے کہ خدا سے خوف کر۔ تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو (بطور سزا) جہنم ہی کافی ہے ان اللہ بالغ امرہ : ان حرف مشبہ بالفعل ۔ اللہ اسم ان بالغ امرہ ، ان کی خبر امرہ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ بالغ مضاف، بالغ بلوغ (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ پہنچنے والا۔ پالنے والا۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے کام تک پہنچ کر رہتا ہے یعنی پورا کرکے رہتا ہے کوئی اس کی تکمیل ارادہ سے نہیں روک سکتا۔ قدرا : بمعنی اندازہ، طاقت ، گنجائش، فراخی (قاموس) آیت میں وقتی اندازہ یعنی مقررہ وقت مراد ہے (بیضاوی) قدر یقدر (باب ضرب) سے قد (مصدر) بمعنی اندازہ کرنا۔ اندازہ لگانا۔ قد ریقدر (باب نصر) قد بمعنی کسی چیز پر قادر ہونا۔ اس کی طاقت رکھنا۔ اور اسی مصدر سے باب ضرب و نصر سے بمعنی خدا کا رزق تنگ کرنا ہے۔ آیت ہذا میں بمعنی کسی چیز کا اندازہ مقرر کرنا۔ وقت مقرر کرنا ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ (1) اور خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے (مولنا فتح محمد جالندھری و تفسیر حقانی) (2) خدا نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے جس میں کوئی تغیر وتبدل ممکن نہیں ہے (بیضاوی، روح المعانی) (3) مقرر کر رکھا ہے اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ (ضٰیاء القرآن) (4) طلاق، عدت وغیرہ کی بابت ایک حد۔ ایک وقت مقرر۔ ایک اندازہ کر رکھا ہے۔ (السیر التفاسیر)
Top