Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرماں برداروں میں سے تھیں۔
(66:12) ومریم ابنت عمران التی۔ واؤ عاطفہ۔ مریم ابنت عمران معطوف ، جس کا عطف امرات فرعون پر ہے ای وضرب اللہ مثلا للذین امنوا مریم ابنت عمران اور اللہ تیعالیٰ نے بیان فرمائی ہے مومنوں (کی تسلی) کے لئے مثال مریم بنت عمران کی۔ التی : اسم موصول واحد مؤنث : جس نے، احصنت۔ ماضی واحد مؤنث غائب احصان (افعال) مصدر بمعنی عصمت وعزت کی حفاظت۔ اس عورت نے محافظت کی فرحھا : مضاف مضاف الیہ۔ اپنے فرج کی، الفرج والفرجۃ کے معنی دو چیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں۔ جیسے دیوار میں شگاف ، یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی، اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرم گاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ والذین ھم لفروجھم حفظون (23:5) اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ شگاف کے معنوں میں قرآن مجید میں ہے وما لہا من فروج (50:6) اور اس میں کوئی شگاف تک نہیں۔ التی احصنت فرجھا : جس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا۔ فنفخنا فیہ :عاطفہ۔ بمعنی پس، پھر ، تو، نفخنا ماضی جمع متکلم۔ نفخ (باب نصر) مصدر فیہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب کا مرجع فرج ہے۔ پھر ہم نے اس میں پھونک دیا۔ مطلب یہ ہے ہمارے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے پھونک مار دی۔ بندوں کے تمام افعال کا خالق اللہ ہی ہے اور اللہ کے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے پھونکا تھا ۔ پھونک کا خالق اللہ ہی تھا۔ اس لئے پھونکنے کی نسبت بجائے جبریل کے اپنی طرف کردی۔ من روحنا۔ اخفش کے نزدیک من زائدہ ہے۔ بغیر کسی توسط کے اللہ نے روح کو پیدا کیا پس تخلیق روح کا تعلق براہ راست اللہ سے ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اس کے فرج میں اپنی روح کو پھونک دیا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ روح فی الواقع فرج میں ہی پھونکا جائے یا گریبان پر پھونکا جائے اور اس کا اثر شرم گاہ تک پہنچ کر حمل پر منیج ہو۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش ایک معجزہ ہے جس میں طبیعاتی جزئیات کو کوئی دخل نہیں پس خدا کی طرف سے اللہ کی خلق کردہ روح جسم میں حضرت مریم کے پھونک دی اور وہ حاملہ ہوگئی ۔ فائدہ : آیت ہذا میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی چند صفات مذکور ہوئی ہیں :۔ (1) احصنت فرحھا۔ اس نے اپنی شرم گاہ کی مخالفت کی۔ (2) وصدقت بکلمات ربھا : اپنے رن کا کلام برحق سمجھتی تھیں۔ (3) وصدقت، بکتبہ اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی تھیں۔ (4) وکانت من القنتین : اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھیں۔ صدقت۔ ماضی واحد مؤنث غائب تصدیق (تفعیل) مصدر اس نے تصدیق کی۔ اس نے سچ مانا۔ بکلمات ربھا : کلمت جمع کلمۃ کی بمعنی احکام۔ اس کے دیگر معانی میں قرآن مجید میں آئے ہیں۔ کلمات مضاف ربھا مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ ، اپنے رب کے احکام ۔ من القنتین : من تبعیضیہ ہے۔ القنتین اسم فاعل جمع مذکر۔ معرف باللام قنوت (باب نصر) مصدر بمعنی خضوع اور عاجزی کرنا۔ قانت خضوع اور عاجزی کرنے والا۔ خضوع کے ساتھ اطاعت کرنے والا۔ فرماں بردار۔ اطاعت کے فرائض کو ادا کرنے والا۔ اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھیں۔ حدیث مرفوع میں ہے کہ :۔ کل قنوت فی القران فھو الحالۃ (رواہ احمد فی مسندہ) ۔ قرآن مجید میں ہر قنوت (سے مراد) طاعت ہے۔ اس لئے قانت ہو یا قانتات ہو یا قانتون ہو۔ یا اس کا ماضی بالمضارع اس کے معنی میں اطاعت کا مفہوم ضرور ہوگا۔ خواہ قرینے کو دیکھ کر یا شان نزول کے تحت کوئی بھی ترجمہ کیا جائے۔ اسی لئے امام راغب (رح) نے المفردات میں لکھا ہے کہ :۔ قنوت کے معنی ہیں۔ اطاعت مع الخضوع۔
Top