Ashraf-ul-Hawashi - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
(اے پیغمبر) ہم تجھ سے ان کاٹھیک قصہ بیان رتے ہیں یہ لوگ (اصحاب کہف) چند جوان شخص تھے جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے1 اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدات دی
1 سلف و خلف رحم اللہ میں سے بہت سے مفسرین کا بیان ہے کہ یہ چند آدمی شہزادے تھے۔ ان کی قوم بتوں کی پوجا کرتی اور ان کے نام پر چڑھاوے چڑھاتی تھی لیکن اللہ نے انہیں توفیق دی اور انہوں نے توحید کی راہ اختیار کی۔ اس پر ان کا بادشاہ جس کا نام دقیانوس بتایا جاتا ہے۔ ان کے درپے آزاد ہوگیا اور پوری قوم کو ان کے خلاف بھانے لگا اسی کشمکش میں انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لئے غار میں پناہ لی۔ عموماً قدیم وجیہہ محققین کا خیال یہ ہے کہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ کے بعد کا ہے اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ہی کا دین قبول کیا تھا مگر ابن کثیر نے حضرت عیسیٰ سے پہلے کا زمانہ بتایا ہے کیونکہ اگر وہ عیسیٰ کے دین پر ہوتے تو یہود اس قصہ کو اتنی اہمیت نہ دیتے۔ واللہ علم شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بادشاہ کے خدام اور نوکر تھے جو بت پرست بادشاہ سے چھپ کر شہر سے نکل گئے۔ (موضح)
Top