Ashraf-ul-Hawashi - Al-Kahf : 40
فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ
فَعَسٰي : وہ تو قریب رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ : کہ يُّؤْتِيَنِ : مجھے دے خَيْرًا : بہتر مِّنْ : سے جَنَّتِكَ : تیرا باغ وَيُرْسِلَ : اور بھیجے عَلَيْهَا : اس پر حُسْبَانًا : آفت مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَتُصْبِحَ : پھر وہ ہو کر رہا جائے صَعِيْدًا : مٹی کا میدان زَلَقًا : چٹیل
اگر تو اس وجہ سے غرور کرتا ہے کہ) مجھ کو مال اور اولاد میں اپنے سے کم سمجھتا ہے تو عجیب نہیں میرا مالک تیرے باغ سے بہتر باغ مجھ کو دے4 اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی بلا (یا انگار) بھیجے پھر وہ چٹیل میدان بن جائے
5 دنیا میں آخرت میں یاد دونوں میں 6 یعنی غرور تکبر کی راہ سے اپنے نفس کی پیروی نہ کرتا بلکہ بھائی کی بات مان لیتا اپنی ساری دولت اور شان و شوکت اللہ ہی کا عطیہ سمجھتا اور مال میں جو دوسروں کے حقوق رکھے گئے ہیں انہیں ادا کرتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : آخر اس کے باغ کا وہی حال ہوا جو اس کے نیک بھائی کی زبان سے نکلا تھا کہ ات کو آگ لگ گئی آسمان سے سب جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ مال خرچ کیا تھا دولت بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔ (موضح)7 یہاں یہ مثال ختم ہوئی۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو سمجھانا ہے کہ غریبوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اصلی چیز اللہ پر ایمان اور اس کی راہ میں اخلاص ہے۔
Top