Ashraf-ul-Hawashi - An-Noor : 9
وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالْخَامِسَةَ : اور اَنَّ : یہ کہ غَضَبَ اللّٰهِ : اللہ کا غضب عَلَيْهَآ : اس پر اِنْ : اگر كَانَ : وہ ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اور پانچویں بار یوں کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اترے اگر وہ (یعنی اس کا خاوند) سچا ہو (اور میں نیواقعی زنا3 کی ہوا
3 ۔ جب اوپر کی آیت میں حد قذف نازل ہوئی تو اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص خود اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ چناچہ یہ سوال سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت سے آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا۔ (بخاری، مسلم) مگر جلدی ہی ہلال ؓ بن امیہ کا واقعہ پیش آگیا۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بیوی کے متعلق بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اس کو زنا کرتے دیکھا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” چار گواہ لائو ورنہ حد قذف تم پر جاری کی جائے گی۔ “ اس پر یہ چار آیتیں نازل ہوئیں اور آنحضرت ﷺ نے ان آیات کے مطابق تصفیہ…لعان… کے لئے ہلال ؓ اور ان کی بیوی کو بلایا۔ چناچہ پہلے ہلال نے قسمیں کھا کر گواہی پیش کی اور پھر اس کی بیوی نے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ حمل جو عورت کے پیٹ میں ہے اس کی ماں کی طرف منسوب ہوگا اور عورت کا زمانہ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال ؓ پر نہ ہوگا کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر جدا کی جا رہی ہے۔ (ابن کثیر)
Top