Ashraf-ul-Hawashi - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
اے پیمبر کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں آپ پاک اور مقدس کہتے ہیں یہ سب غلط ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے پاک اور مقدس کرتا ہے اور ایک تاگے4 برارب بھی ان پر ظلم نہ ہوگا
4 فتیل دراصل اس پتلے سے دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی کٹھلی کے کٹاو پر نظرآتا ہے۔ یہ محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر ذرہ و معصوم سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے۔ ان کی تردید فرمائی کہ کسی کو پاکباز انسان قرار دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے اپنی طرف آپ کرنا انسان کے لیے مہلک ہے حدیث میں ایاکم واتما دح فانہ الذحج کہ خود پسندی اور اپنی تعریف سے بچو یہ تو اپنے آپ کو ذبح کرنے دینے کے مترادف ہے۔ نیز حضرت عمر ؓ سے مروی ہے وہ اپنی ہی رائے کو پسند کرنا ہے۔ (ابن کثیر )
Top