Ashraf-ul-Hawashi - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ نے تمہارے لئے اے مسلمانو قسم کا اتار ڈالنا ٹھہرا دیا ہے7 اور اللہ تمہارا کام بنانے والا (سرپرست ہے) اور وہ خوب جانتا ہے حکمت والا
7 یعنی اگر نامناسب چیز ہر قسم کھالو، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا کافرہ مقرر کردیا۔ ( سورة مائدہ :89) تم اسے ادا کر کے اپنی قسم توڑ سکتے ہو۔ چناچہ حضرت عمر (یا حضرت ابن عباس) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کفارہ ادا کیا اور ماریہ سے تعلق قائم رکھا۔ (ابن کثیر بحوالہ نسائی) بعض لوگ (جیسے احناف) کہتے ہیں کہ محض کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا قسم ہے۔ لیکن آیت سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر عتاب کیا اور پھر فرمایا :” قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم “ اور اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں جو واقعات روایات میں مذکور ہیں ان میں واضحطور پر یہ مذکور ہے کہ آنحضرت نے پہلے ایک خبر کو اپنے اوپر حرام کیا اور پھر اس کی قسم کھائی معلوم ہوا کہ قسم سے کفارہ واجب ہوتا ہے نہ کہ محض حرام کرلینے سے۔ (شوکانی)
Top