Asrar-ut-Tanzil - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کیا کیجئے کہ میں اس کو کل کردوں گا
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف آپ کے مرتبہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ کہہ دیں کل یہ کام کر دوں گا کہ آپ تو سراپا ہدایت تھے اور آپ کے معجزات دیکھ کر لوگ آپ ہی کی پرستش نہ کرنے لگ جائیں ، اور یہ نہ سمجھ لیں کہ سب کچھ کرنا آپ ﷺ کے ذاتی اختیار میں ہے ، لہذا کبھی مت کہیے کہ میں یہ کام کر دوں گا ، سوائے اس کے کہ انشاء اللہ ملا لیجئے یعنی اللہ جل جلالہ نے چاہا تو یہ کام کر دوں گا ۔ جب آپ ﷺ پر یہ تین سوال پیش کئے گئے تو آپ ﷺ نے فرما دیا کہ کل جواب دوں گا اور انشاء اللہ ساتھ نہ فرمایا تو کم وبیش پندرہ روز تک کوئی وحی نازل نہ ہوئی جس پر آپ ﷺ بھی بہت افسردہ ہوئے اور کفار نے بڑا مذاق اڑایا مگر پھر اس آیۃ کریمہ کے نزول سے تسلی ہوئی اور آئندہ کے لیے ایک ضابطہ معین ہوگیا ۔ تو عام مسلمانوں کے لیے بھی انشاء اللہ کہنا مستحب قرار پایا چناچہ اگر بھول چوک ہوجائے اور بات کرتے وقت اللہ جل جلالہ کا ذکر یاد نہ رہے یعنی اتفاقا انشاء اللہ نہ کہا جائے تو جیسے یاد آئے کہہ دیجئے کہ آپ ﷺ کو یہی طرز عمل زیبا ہے ۔ ان لوگوں سے فرمائیے کہ تمہیں یہ قصہ بہت عجیب معلوم ہوا حالانکہ اس سے بہت زیادہ بڑی اور اہم باتیں اللہ جل جلالہ نے مجھے بتائیں اور میرے ذریعے تم تک پہنچیں ، آدم (علیہ السلام) اور ان سے بھی پہلے کا ذکر عرش اور آسمانوں ، فرشتوں کی باتیں ، موت کے ، زندگی کے احوال اور سب سے بڑھ کر اللہ جل جلالہ کی ذات اور اس کی صفات کے بیان یہ انسانی ہدایت کے لیے اس قصے کی نسبت بہت بڑی دلیلیں ہیں ۔ اور یہ جو جھگڑا ان کے غار میں رہنے کی میعاد میں کرتے ہیں تو چونکہ مدت کا دراز ہونا اس واقعہ کے خرق عادت اور کرامت کی اہمیت واضح کرتا ہے لہذا انہیں فیصلہ کن بات بتا دیں کہ وہ لوگ نیند کی حالت میں غار کے اندر تین سو نوسال رہے جس طویل عرصہ میں نہ صرف ان کے وجود اور لباس تک محفوظ رہے بلکہ بغیر کھائے پیئے ان کے وجود زندہ رہے اور وہ صرف سوتے رہے ، اگر کفار یقین نہ کریں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہاں یہ فرما دیجئے کہ اللہ ہی یقینا صحیح عرصہ قیام جانتا ہے اور وہی بتا سکتا ہے اور یہ مدت وہی بتا رہا ہے ، اور اس کی ذات اتنی عظیم ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے سب غیب تک اس پہ آشکارا ہیں ، وہ خوب دیکھتا ہے اور سنتا ہے ، اگر یہ اعتبار نہ بھی کریں گے تو کونسا کسی کو اللہ کے مقابل مددگار بنا لیں گے کہ ان کے لیے بھی سوائے اسی کی ذات کے کوئی مددگار نہیں اور نہ کوئی اس کے احکام اور امور سلطنت میں مداخلت کی جرات کرسکتا ہے کہ کفار بھی اللہ جل جلالہ کی قدرت کو اپنے اوپر قیاس کرکے ایسے امور کی باطل تاویلیں کیا کرتے تھے جیسے آج کل کے کرامات ومعجزات کا انکار کرنے والے حیلے تراشتے رہتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ کرامات ومعجزات خرق عادت ہوتے ہیں ، لہذا امور عادیہ پہ قیاس کرنا ہرگز درست نہیں ہو سکتا ۔ آپ ﷺ کا فریضہ اس وحی الہی کو لوگوں پہ پڑھنا اور سنانا ہے جو اللہ جل جلالہ کی طرف سے آتی ہے اور آپ ﷺ منوانے کے تو ذمہ دار نہیں آپ ﷺ نے پہنچا دیا حق ادا ہوگیا کہ نزول کتاب اللہ کی شان ربوبیت کا تقاضا ہے اور انسانی تربیت کے لیے بہت اہم دولت ہے ، لہذا اس میں کفار کے رؤساء کے مطالبہ پر تبدیلی ممکن نہیں نہ آپ ﷺ اس کی فکر کریں کہ یہ لوگ ایمان نہ لائے تو اسلام کیسے پھیلے گا اور دین میں ترقی کیسے ہوگی بلکہ آپ ﷺ تعمیل ارشاد میں بات پہنچاتے رہئے کہ اگر کوئی بھی اللہ جل جلالہ کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرے گا یا اللہ جل جلالہ کی اطاعت چھوڑ کر مخلوق کی طرف جھکے گا تو اسے اللہ کی گرفت سے بچنے کو کوئی پناہ نہ مل سکے گی کہ سب کی پناہ بھی اللہ جل جلالہ ہی کی ذات ہے لہذا مشرکین مکہ کا یہ مطالبہ کہ فقیر اور غیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو الگ کر دیجئے کہ ہم بھی آپ ﷺ کی مجلس میں تو بیٹھ سکیں ہرگز قابل توجہ نہیں ۔ (معیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ آپ ﷺ اپنی ذات گرامی کو اپنی معیت ذاتی کو ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص کر دیجئے جو اللہ جل جلالہ کے قرب کی طلب میں اور اس کی رضا کی خاطر اس کا ذکر علی الدوام کرتے ہیں اور کسی لمحے ان سے اس کی یاد نہیں چھوٹتی ۔ (ذکر دوام) ہاں علماء نے علی الدوام عبادت کرنا بھی لکھا ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ بھی درست ہے اور حقیقی مراد ذکر قلبی ہے جو نصیب ہوجائے تو اس میں کوئی لمحہ غفلت واقع نہیں ہوتی ، نیز آپ ﷺ حجرہ مبارک سے مسجد میں تشریف لائے تو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بیٹھے ذکر الہی کر رہے تھے آپ ﷺ ان کے ہمراہ بیٹھ گئے ، یہی آیہ مبارکہ تلاوت فرمائی اور فرمایا اللہ جل جلالہ کا شکر ہے جن لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا وہ لوگ بھی مہیا فرما دیئے ، نیز اگلے جملے میں تقابل بھی انہی لوگوں سے ہے کہ ان کو پرکاہ اہمیت نہ دیں جن کے قلوب ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیئے ، حدیث شریف میں جہاں ذکر لسانی پر ذکر قلبی کی بہت زیادہ فضلیت ارشاد فرمائی ہے ، وہاں قرآن حکیم کے مطابق صحبت نبوی ﷺ کے اثر اور برکات سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے نہ صرف قلوب ذاکر تھے بلکہ وجود کا ذرہ ذرہ ذاکر تھا جیسے ارشاد ہے (آیت) ” ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ “۔ کہ ان کی کھال سے لے کر قلوب تک ہر ذرہ بدن ذاکر تھا ، دراصل ذکر مختلف مدارج ہیں ۔ (ذکر کے مدارج) ایمان قبول کرنا بھی ذکر ہے ، جبکہ خلوص دل سے ہو یہ کم از کم کیفیت اور پہلا درجہ ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ عمل سنت کے مطابق نصیب ہو تو ہر عمل بجائے خود ذکر ہے ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ زبانی تسبیحات پڑھی جائیں یہ ذکر لسانی کہلاتا ہے اور چوتھا اور کامل درجہ یہ ہے کہ قلب ذاکر ہوجائے اور ذکر پر دوام نصیب ہوجائے یہ صحبت شیخ سے انعکاسی طور پر نصیب ہوتا ہے ، اس کے سوا اس کا کوئی اور طریقہ نہیں اور ہر درجے کے ذکر پر اسی کی نسبت سے معیت نبوت اور آپ ﷺ کی شفقت وکرم نصیب ہوتا ہے ۔ اس ادائے احسان وکرم میں کبھی یہ نہ سوچیں کہ دنیا کے اعتبار سے یا مال وزر اور اقتدار واختیار میں کون بڑا ہے اور ظاہرا اس سے دین کو زیادہ قوت ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے لہذا اسے آپ وقت عطا کریں ، اپنی مجلس مبارک میں بٹھائیں ہرگز نہیں بلکہ آپ ﷺ کی نگاہ کرم اللہ جل جلالہ کے ان بندوں کے لیے ہے جو اپنے قلوب آپ ﷺ کی برکات سے روشن کرکے ہر آن اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتے ہیں ، لہذا جن لوگوں کا قلب ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہو جس کا سبب ان کی نافرمانی اور انکار کفر ہی بنتا ہے ۔ (قلب غافل ہوجائے تو انسان خواہشات کے تابع ہوجاتا ہے) اور جب قلب پہ غفلت کی موت آئے تو انسان انسانیت کے شرف سے محروم ہو کر حیوانوں کی طرح محض خواہشات کے تابع ہوجاتا ہے تو ایسے لوگوں کو آپ پرکاہ اہمیت نہ دیجئے ان کی بات سنیئے نہ ان کی طرف توجہ فرمائیے ۔ بلکہ یہ واضح طور پر ارشاد فرما دیجئے کہ یہ دین اور برکات رسالت حق ہیں جو تمہارے پروردگار کا تم پر احسان ہے اب جو چاہے انہیں قبول کرے اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو اور جو رد کرنا چاہے وہ بھی اپنی پسند کی راہ اپنا کر دیکھ لے ، مگر یہ یاد رکھ لو کہ اللہ جل جلالہ نے ایسے ظالموں کے لیے جہنم کی آگ بھڑکا رکھی ہے ، جہاں دیواریں یا قناتیں جو انہیں محیط ہوں گی وہ بھی آگ ہی کی بنی ہوں گی بلکہ اگر پینے کو کچھ مانگیں گے تو پیپ جیسا مایہ ملے گا جو آگ سے زیادہ گرم ہوگا کہ منہ کی طرف لے کے جائیں گے تو چہرے جھلس دے گا ، بہت ہی سخت اور تکلیف دہ شے ہوگی پینے کی بھی اور سارا ٹھکانہ اپنی تمام حالتوں میں بہت دردناک اور برا ہے ، اس کے مقابل جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اسے حسن عمل یعنی اطاعت سے سجایا تو ہم نیکی کرنے والوں کے اعمال رائیگاں نہ جانے دیں گے بلکہ عمل کے حساب سے بہت بہترین اجر عطا فرمائے گا ۔ ان کے رہنے کو بہترین اور سدا بہار باغ ہوں گے ، پانی کی نہریں ان باغوں کے تابع ہوں گے کہ ہمیشہ اپنی بہار قائم رکھیں ، اور اللہ جل جلالہ کے بندوں کو وہاں انعامات سے نوازا جائے گا ، سونے کے کنگن اور بہترین نفیس سبز کپڑے پہن کر اعلے درجے کے ریشمی تکیے لگا کر قیمتی تختوں پہ جلوہ افروز ہوں گے ، بہترین بدلہ اور اجر اور بہت ہی اعلی ٹھکانہ ہوگا ، یاد رہے یہ لباس اور زیور نیز زیب وزینت کی بات آخرت کے اعتبار سے ہو رہی ہے ، اسے دنیا پہ قیاس نہ کیا جائے کہ سونا اور ریشم مردوں کے لیے جائز ہے یا نہیں ۔
Top