Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَهِلَّةِ : نئے چاند قُلْ : آپ کہ دیں ھِىَ : یہ مَوَاقِيْتُ : (پیمانہ) اوقات لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالْحَجِّ : اور حج وَلَيْسَ : اور نہیں الْبِرُّ : نیکی بِاَنْ : یہ کہ تَاْتُوا : تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے ظُهُوْرِھَا : ان کی پشت وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنِ : جو اتَّقٰى : پرہیزگاری کرے وَاْتُوا : اور تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے اَبْوَابِهَا : ان کے دروازوں سے وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : کامیابی حاصل کرو
آپ سے چاندوں کے بارے پوچھتے ہیں۔ فرما دیجئے یہ لوگوں کے لئے وقت کی شناخت ہے اور حج کے لئے۔ اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے سے آؤ اور لیکن نیکی پرہیزگاری اختیار کرنے میں ہے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاسکو
آیات 189- 196 اسرارو معارف یسئلونک عن الاھلۃ……………کذالک جزاء الکفرین۔ یہ باب البر چل رہا ہے۔ آخر سورة تک مختلف احکام بیان ہو رہے ہیں ، جیسے قصاص ، دیت ، وصیت ، صوم اور اس کے متعلقہ مسائل اعتکاف ، مال کا حلال و حرام پہچاننا۔ عبادات میں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا : اب جہاد اور حج کے بارے ارشاد ہے کہ آپ ﷺ سے چان کے گھٹنے اور بڑھنے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو فرمائیے کہ چاند کے اس گھٹنے بڑھنے میں سہولت یہ ہے کہ یہ ایک قدرتی نظام ہے وقت کو شمار کرنے کا۔ خواہ معاملات اختیاری ہوں جیسے مطالبہ حقوق وغیرہ اور خواہ خیر اختیاری ، جیسے عبادات مثل حج روزہ زکوٰۃ وغیرہ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ عبادات میں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا۔ اگرچہ شمسی نظام سے بھی سال اور مہینوں کا حساب لگایا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے آلات رصد اور قواعد ریاضی کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس چاند کے طلوع سے خاتمہ تک مہینہ شمار کرنے کے لئے کسی آدمی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ خواہ کسی دور دراز جنگل میں کیوں نہ بستا ہو۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے تمام عبادات میں قمری مہینوں کو اور اس کے حساب کو فرض قرار دیا ہے اور عام معاملات میں بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے مراد انسان کے لئے وقت کی پیمائش کا ایک قدرتی آلہ مہیا کرنا ہے۔ اگر سوال یہی تھا تو جواب ہوگیا۔ لیکن اگر سائل کی مراد گھٹنے بڑھنے کی حقیقت جاننا تھا تو اس جواب سے واضح ہوا کہ اس سے انسان کے لئے کوئی صالح وابستہ نہیں۔ اس لئے اسلوب بیان ایسا اختیار فرمایا جس سے ظاہر ہے کہ انسان کو اس حد تک تحقیق کرنا چاہیے جہاں تک انسانی مصالح وابستہ ہوں فضول جستجو میں وقت ، محنت اور دولت کو ضائع نہ کیا جائے۔ اجرام سماوی کی حقیقت اول تو انسانی علم کی زد سے باہر ہے ، دوسرے اس کے جاننے یا نہ جاننے سے اس کی عملی زندگی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے یہ ساری کاوش فضول ہے ورنہ چاند کے طلوع غروب سے بیشمار قدرتی اثرات بھی وابستہ ہیں ، جیسے پھلوں میں مٹھاس وغیرہ۔ مگر چونکہ انسان نہ اس کو طلوع کرنے پر قادر ہے نہ غروب ، نہ اس کی روشنی کو کم یا زیادہ کرنے پر۔ اور نہ اس کے اثرات گھٹا بڑھا سکتا ہے۔ اس کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس سے ماہ وسال شمار کرے خصوصاً مسلمان اوقات عبادات کے مہ وسال اسی سے شمار کرے۔ یہ چان پر جابسنے کے خیال کچھ دولت اور وقت کا ضیاع ہے یہی کروڑوں ڈالرزمین پر انسانی سہولت کے لئے خرچ ہوتے تو دوسرے کروں پر بھاگنے کی ضرورت نہ رہتی اور اگر کوئی دوسرے کروں پر چلا بھی گیا تو اصلاح کے لئے وہاں بھی ایٹم بم ہی لے جائے گا پھر فائدہ ؟ اور پھر یہ نیکی نہیں ہے کہ تم عبادات کے لئے رواج کی پیروی کرو۔ جیسے حج کے زمانے میں مشرکین گھروں میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے مگر جانا بھی ضروری ہے تو پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر جاتے ہیں ، یہ کوئی تک نہیں بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے مالک حقیقی سے حیا کرے اور اس کی فرمانبرداری میں لگا رہے۔ اس کے حکم کے مقابلے میں کسی رواج کی کوئی حیثیت نہیں کسی فعل کو نیک ثابت کرنے کے لئے اسے سنت سے ثابت کرنا ہوگا۔ چونکہ یہ اقدام سنت میں نہیں لہٰذا یہ کوئی نیکی نہیں۔ دراصل کتاب اللہ کے احکام بھی ثابت سنت خیرالانام ﷺ ہی سے ہوں گے۔ ورنہ یار لوگ مختلف لغات کا سہارا لے کر بات کو کہیں سے کہیں لے جائیں گے۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرو کہ تمہاری بھلائی اسی میں ہے اور نہ صرف دین کے مقابل رواج رپ عمل ہی چھوڑ دو بلکہ جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں اور دین کی جگہ اپنا رواج جاری کرنا چاہتے ہیں ان سے جنگ کرو اللہ کے لئے ، اس کی رضا کے لئے کرو۔ کسی انتقامی جذبے سے یا ذاتی غرض سے نہ سوچو۔ چونکہ وہ بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے ان سے بھی زیادتی نہ کرو۔ یہ بات خوب یادرکھو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی لئے جنگ لو جہاد کا نام دیا گیا ہے کہ اس میں مقابل کی بھلائی بھی پیش نظر ہوتی ہے اور اس کی اصلاح احوال بھی مقصود یہی وجہ ہے کہ جہاں مسلمان بحیثیت فاتح داخل ہو ، مقابل کے دل بھی فتح کرلئے اور جو جگہ کفار کے قبضہ میں آئی وہاں کی زمین بھی ان کے ظلم سے تھرا اٹھی تہذیب مغرب کے دلدادہ بیت المقدس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے قبضہ کے حالات پڑھ کر اندازہ کرسکتے ہیں۔ گر کافر تم پر زیادتی کرنا چاہیں تو بھی بےجگری سے لڑو اور ہوسکے تو جس طرح انہوں نے تم سے شہر خالی کرالیا تھا تم بھی انہیں نکال باہر کرو کہ فتنہ یعنی شرانگیزی اور دین کی مخالفت کرکے فساد مچانا یا اس کی کوش کرنا قتل سے زیادہ سخت جرم ہے جس کے مرتکب ہو رہے ہیں نیز اس سارے قتال میں بھی اللہ کی عظمت پیش نظر رکھو اور حدود حرم میں لڑائی سے پرہیزکرو۔ ہاں ! اگر وہ لوگ وہاں تم سے لڑنا شروع کردیں تو پھر تمہیں اجازت ہے دفاعی جنگ ضرور لڑو اور ایسی جم کر لڑو کہ ان کے پرخچے اڑادو ” فاقتلوھم “ اور کافر اسی سلوک کا مستحق ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے زیادتی کرے تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب حضور ﷺ حدیبیہ کے بعد اگلے سال عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تو اگرچہ مشرکین کا حضور ﷺ کے ساتھ معاہدہ تھا مگر صحابہ کرام ؓ کو اعتبار نہ تھا۔ اس دور میں چار مہینے حرمت کے مقرر تھے ذیقعد ، ذی الحجہ ، محرم تین ماہ مسلسل اور چوتھا رجب۔ اسلام نے بھی ان کی حرمت باقی رکھی جو بعض حضرات کا خیال میں 7 ہجری میں منسوخ ہوگئی مگر بایں ہمہ اب بھی ان کا وہی احترام باقی ہے اور باجماع ان میں صرف دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت ہے۔ (معارف) اس وقت بھی ان میں کوئی کسی سے زیادتی نہ کرتا تھا اور لوگ بےخوف سفر کرتے تھے پھر حرم کی حرمت بھی تھی جو ابھی تک ہے اور قیامت تک رہے گی کہ حرم میں شکار بھی نہ مارا جائے حتیٰ کہ سبز گھاس تک نہ کاٹی جائے تو چونکہ مسلمان تو حرم کی عزت کریں گے لیکن مشرکین اگر معاہدہ توڑ کر آپ ﷺ کو نقصان پہنچانا چاہیں تو ؟ اللہ کریم نے یہ آیات نازل فرما کر ضابطہ مقرر کردیا کہ حرم کی حرمت کا خیال رکھو لیکن اگر کافر ناجائز فائدہ اٹھانا چاہیں تو ایسا مت ہونے دو ۔ اسی صورت میں فقہاء فرماتے ہیں کہ حد حرم میں اگر کوئی کسی کو قتل کرنا چاہے تو اپنا دفاع کرنے کی اجازت ہے ۔ سو اگر ایسی صورت ہو تو انہیں بےدریغ قتل کرو۔ خواہ وہ کہیں ہوں ، حرم میں یا بیت اللہ کے پردوں میں چھپنے کی کوشش کریں۔ مگر ہاں زیادتی نہ کرو یعنی جو نہ لڑے یا لڑنے کے قابل ہی نہ ہو۔ بچہ ، بوڑھا ، عورت وغیرہ انہیں مت چھیڑو زیادتی اللہ کو پسند نہیں اور ان سب زیادتیوں کے بعد بھی اگر کافر باز آجائیں تو اللہ بہت بڑا معاف کرنے والا ، اور رحم کرنے والا ہے۔ سبحان اللہ ! دوستاں راکجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظرداری لیکن اگر باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو۔ اور اس وقت تک ہتھیار نہ رکھو۔ جب تک فساد کی کوئی چنگاری باقی ہے حتیٰ کہ فساد مٹ جائے اور اللہ کی حکومت قائم ہو۔ اللہ کی مخلوق پر اللہ کا قانون نافذ ہو اور انسانی خواہشات کے پلندے کو قانون کا نام دے کر کسی پر نہ ٹھونسا جائے ہر انسان خواہ مسلم ہو یا کافر اللہ کی مقرر کردہ حدود میں اپنا مقام اور حق حاصل کرسکے۔ اور اگر کفار سرکشی سے باز آجائیں تو سوائے ان لوگوں کے جن کے ذمے جرائم ہوں سب کو معاف کردو۔ یعنی محض اسلام دشمنی کی سزا نہ دو کہ اس سے تو وہ باز آچکے۔ ہاں ! کسی نہ کسی پر زیادتی کی ہو تو اس سے اس کا حق دلوایا جائے۔ یہی حال شہر حرام کا ہے کہ اگر وہ اس کا خیال رکھیں تو پھر درست لیکن اگر وہی پرواہ نہ کریں تو دفاعی جنگ سے مت ہٹو کہ یہ حرمت تو بدلے کی چیز ہے۔ اگر وہ کریں گے تو پائیں گے بھی۔ ورنہ سارا وبال ان کی گردن پر اور جو بھی تم سے زیادتی کرے ویسا ہی اسے جواب بھی دو ۔ اور یادرکھو کہ یہ زیادتی تم پر کیوں کرتا ہے تمہارا جرم کیا ہے کہ تم نے دین حق قبول کیا۔ تو تم جواب دیتے وقت حق کو سامنے رکھو اور دفاع کرو ، کبھی زیادتی کرنے والے نہ بن جائو۔ کہ تائید باری ہمیشہ متقی یعنی اللہ سے حیاء کرنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ انفاق اگرچہ عموماً دولت خرچ کرنے کے معنوں میں آتا ہے لیکن یہاں اس کا بہتر ترجمہ اپنی ساری توانائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے کہ جہاں دولت کی ضرورت ہو وہاں دولت ، جہاں تعاون کی ضرورت ہو وہاں تعاون ، جہاں زبان وقلم سے کام چلے وہاں زبان وقلم اور جہاں جان کا نذرانہ درکار ہو وہاں جان دے۔ یعنی یہ چندروزہ زندگی اور عارضی اقتدار اور وقتی دولت یہ سب کچھ اللہ کے لئے خرچ کرو تاکہ تم اس کا اعلیٰ بدلہ پائو نہ یہ کہ ان پر نثار ہوتے رہو۔ اور اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کے اسباب کر بیٹھو۔ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ۔ یعنی اپنی تباہی کے باعث نہ بنو کہ آج تم ان چیزوں کو محبوب رکھو اور مقصد حیات بنالو تو کل یہ تو چھن ہی جائیں گی اور اللہ کی راہ میں محنت نہ کرنے سے آخرت بھی گئی۔ سو ہمیشہ نیکی کے کاموں میں سبقت کرو۔ بھلائی کرو کہ اللہ اچھائی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ اچھائی نام ہے سنت خیرالانام ﷺ کا۔ جو کام بھی سنت رسول ﷺ کی حدود کے اندر ہو ، اچھائی ہے اور اس کا کرنے والا اللہ کا محبوب۔ فقہاء کی رائے میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی بعض مصارف ایسے ہیں جن کو پورا کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے جیسے جہاد کے اخراجات ، اور اگر ضرورت پیش نہ ہوگی تو فرض بھی نہ ہوں گی۔ ترج جہاد ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی یہ ہے کہ غلبہ اسلام کے وقت لوگوں میں گفتگو ہوئی کہ اب جہاد کی ضرورت اتنی نہیں رہی اب کھیتوں وغیرہ میں زیادہ محنت کرنی چاہیے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بعض کے نزدیک ایسی حالت میں کہ سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو شہید کروایا جائے دشمن کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ لڑنا بھی اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔ مگر یہ معنی بہت بعید ہیں اور اگرچہ اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں مگر ان چیزوں کا مدار خلوص نیت پر ہے۔ اسی لئے ارشاد ہے واحسنوا کہ ہر کام خلوص نیت اور صمیم قلب سے کرو کہ خود رسول اللہ ﷺ نے احسان کی تفسیر حدیث جبریل میں یہ ارشاد فرمائی ہے کہ عبادت اس طرح کرو ، جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ اعتقاد لازم ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ حج : باب البر میں گیارہواں حکم حج کا ہے جو مذکورہ آیت سے لے کر 203 نمبر آیات تک مسلسل بیان ہورہا ہے۔ حج باجماع امت ارکان اسلام میں سے ہے اور ایک اہم فرض ہے جس کی تاکید واہمیت کتاب وسنت میں بکثرت وارد ہے بحوالہ ابن کثیر جمہور کے قول کے مطابق ہجرت کے تیسرے سال آل عمران کی آیت واللہ علی الناس حج البیت……میں اس کی شرائط کا بیان ہے اور باوجود طاقت رکھنے کے حج نہ کرنے پر سخت وعید ہے۔ مگر یہ آیت قصہ حدیبیہ میں نازل ہوئی جو 6 ہجری کا واقعہ ہے اس لئے فرضیت حج کا ذکر نہیں بلکہ حج وعمرہ کے ارکان کا بیان ہے کہ عمرہ کا بیان سورة آل عمران کی آیات میں نہیں۔ تو یہاں یہ مذکور ہے کہ حج وعمرہ بذریعہ احرام شروع کردینے سے واجب ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ عمرہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے اور یہی ائمہ کے اقوال سے ثابت ہے۔ یہاں جس طرح پہلی آیات میں احسان کا ذکر ہورہا ہے اسی کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ حج وعمرہ بھی صرف اور صرف اللہ کے لئے ادا کرو اس سے غرض ا صلی اللہ کی رضا کا حصول ہو ، نہ محض سیروتفریح مراد ہو ، نہ تجارت اور نہ ہی شہرت کی غرض ہو ۔ اگرچہ یہ سب چیزیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں سیریں بھی ہوتی ہیں اور کچھ نہ کچھ خریدوفروخت بھی۔ لوگ ” حاجی صاحب “ بھی کہتے ہیں مگر اس کا حصول مراد نہ ہو۔ اس کی جانچ اس طرح ہوسکتی ہے کہ اگر سفر میں ہم ارکان حج کی ادائیگی میں متفکر ہیں تو یقینا نیت درست ہے پھر تو آدمی ایک ایک رکن کو پوچھ پوچھ کر اور پوری محنت سے ادا کرے گا اور اگر ہم نے ارکان تو بجائے خود نمازوں تک کی ادائیگی میں کوتاہی برتی تو پھر اپنے دل کو ٹٹولنا چاہیے کہ اس تمام سفر کا آخر مقصد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان اللہ شدید العقاب کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ ہمارے زمانے کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سفر ہر حال میں مبارک ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر سفر حج میں بھی اور ارکان حج کی ادائیگی میں بھی لاپرواہی اور کوتاہی کو اختیار کیا تویہی بات غضب الٰہی کو دعوت دینے کا سبب بن گئی۔ جہاں ایک نماز ایک لاکھ کا ثواب پاتی ہے وہاں کی نماز کو چھوڑ دینا بھی گویا ایک لاکھ کو ضائع کرنا ہے۔ اب احکام کو لیجئے ! تو پہلا حکم یہی ارشاد ہوا کہ اگر احرام باندھنے کے بعد تمہیں کوئی عمرہ ادا کرنے سے روک دے جیسے اس واقعہ میں مشرکین نے حضور ﷺ کو اور آپ ﷺ کی جماعت کو روک دیا تھا تو قربانی دے کر احرام کھول لے۔ جس کی شکل بال منڈوانا یا کٹوانا ہے اور قربانی بکرے ، گائے یا اونٹ جو میسر ہودے سکتا ہے نیز قربانی حد حرم میں ذبح کی جائے۔ امام اعظم (رح) کے نزدیک اگر خود نہ پہنچ سکتا ہو تو کسی دوسرے کے ہاتھ روانہ کردے۔ اسی سے ثابت ہے کہ احرام کی صورت میں بال کٹوانا منع ہے اگرچہ یہ حکم دشمن کے روکنے کی صورت میں ہے مگر ائمہ نے باشتراک علت بیماری وغیرہ کی مجبوری کو اس میں داخل کیا ہے۔ نیز رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے کہ اگر مجبوری کی شکل میں قربانی دے کر احرام کھول دے مگر جب یہ مجبوری ہٹ جائے تو قضا کرے کہ اس کی قضا واجب ہے۔ چونکہ سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا ہی احرام کھولنے کی علامت ہے لیکن اگر کوئی شخص بیماری یا مجبوری کی وجہ سے سر یا بدن کے کسی دوسرے حصے کے بال کٹانے پر مجبور ہو تو بقدر ضرورت بال تو کٹوالے مگر اس کا فدیہ ہے کہ روزے رکھے صدقہ دے یا قربانی دے۔ قربانی تو حد حرم میں کرے روزے یا صدقہ جہاں بھی ادا کرے سنت ہے ، نیز قرآن میں تو کوئی عدد یامقدار مذکور نہیں مگر حدیث سے ثابت ہے کہ تین روزے یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع گندم بطور صدقہ دے (بخاری) آدھا صاع تقریباً پونے دو سیر کا ہوتا ہے یا اس کی قیمت ادا کردے۔ قبل از سلام کے رواجات میں یہ بھی تھا کہ جب حج کہ مہینے شروع ہوجائیں یعنی ماہ شوال سے حج وعمرہ کو جمع کرنا گناہ ہے تو یہاں اس کی اصلاح کردی گئی ہے کہ جو لوگ حدود میقات کے اندر رہتے ہیں وہ تو حج اور عمرہ جمع نہ کریں کہ ان کو عمرہ کی غرض سے سفر کرنا دشوار نہیں ، مگر باہر سے آنے والوں کو حج کے ساتھ عمرہ جمع کرنے کی اجازت ہے۔ میقات وہ مقامات ہیں جو اطراف عالم سے آنے والے حجاج کے لئے ہر راستہ پر متعین ہیں اور حج یا عمرہ کا احرام باندھے بغیر وہاں سے آگے بڑھنا گناہ ہے۔ البتہ جو لوگ حج وعمرہ کو جمع کریں ان پر شکرواجب ہے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک قربانی دے گائے یا اونٹ۔ لیکن اگر اس کی ہمت نہ رکھتا ہو تو پھر اس پر دس روزے واجب ہیں جن میں سے تین ایام حج میں رکھے یعنی نویں ذوالحج تک پورے کردے اور سات حج سے فارغ ہو کر جہاں چاہے اور جب چاہے رکھے اگر تین روزے ایام حج میں نہ رکھ سکے تو پھر اکابر اور امام صاحب (رح) کے نزدیک اس کے لئے قربانی ضروری ہے جب قدرت ہو حرم میں قربانی کرادے۔ حج اور عمرہ کو جمع کرنے کی دو صورتیں ہیں تمتع اور قرآن۔ ایک یہ کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے۔ یہ احرام حج کے احرام کے ساتھ کھولے گا اسے قرآن کہا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھے جو مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرکے کھول دے اور پھر آٹھویں ذوالحج کو منی جانے کے لئے حج کا احرام باندھے ، یہ تمتع ہے۔ ان سب امور میں خوف خدا کو پیش نظر رکھے ، اور کسی طرح کی کوتاہی یا سستی کو درمیان میں نہ آنے دے کہ اللہ کے عذاب بہت سخت ہیں آج کل تو اکثر لوگ پرواہ نہیں کرتے غلط کار معلموں کے ہتھے چڑھ کر ساری محنت ضائع کرتے ہیں یا دوستوں کی محافل میں بےپروائی سے وقت ضائع کرکے چلے آتے ہیں اور بہت سے لوگ تو فرائض کی پرواہ نہیں کرتے سنن وآداب کی تو بات ہی کیا۔ للہ ہم سب کو اصلاح احوال کی طاقت بخشے ! آمین۔
Top