Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ : حج اَشْهُرٌ : مہینے مَّعْلُوْمٰتٌ : معلوم (مقرر) فَمَنْ : پس جس نے فَرَضَ : لازم کرلیا فِيْهِنَّ : ان میں الْحَجَّ : حج فَلَا : تو نہ رَفَثَ : بےپردہ ہو وَلَا فُسُوْقَ : اور نہ گالی دے وَلَا : اور نہ جِدَالَ : جھگڑا فِي الْحَجِّ : حج میں وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کروگے مِنْ خَيْرٍ : نیکی سے يَّعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم زاد راہ لے لیا کرو فَاِنَّ : پس بیشک خَيْرَ : بہتر الزَّادِ : زاد راہ التَّقْوٰى : تقوی وَاتَّقُوْنِ : اور مجھ سے ڈرو يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو
حج کے مہینے معلوم ہیں سو جو ان میں حج کا ارادہ کرے تو نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی براکام اور نہ جھگڑا کرے ایام حج۔ اور جو نیکی تم کرو گے اللہ اس سے واقف ہیں۔ اور راستے کا خرچ لے لیا کرو تو بیشک بہترین زادرہ ن کی ہی اور اے صاحب دانش لوگو ! مجھ سے ڈرو
آیات 197- 210 اسرارو معارف الحج اشھر معلومات………………والی اللہ ترجع الامور۔ احکام حج : عمرہ کے لئے تاریخ یا مہینہ مقرر نہیں بلکہ سارا سال جب چاہیں ادا کریں مگر حج میں یہ بات نہیں۔ بلکہ اس کے لئے مہینے مخصوص اور پھر تاریخیں مقامات اور پھر خاص تاریخوں میں مقررہ مقامات پر افعال و اعمال مقرر ہیں جو معروف ہیں کہ عہد جاہلیت میں بھی یہی مہینے مقرر تھے یعنی شوال ، ذی قعد اور دس روز ذی الحج کے اور اسلام میں بھی یہی باقی رہے۔ یعنی شوال سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں۔ اب جو کوئی حج کا ارادہ کرے تو یہ بات خوب جان لے کہ فحش بات یا کسی طرح کی نافرمانی یا کسی قسم کے نزاع کی دوران حج بالکل گنجائش نہیں ہے۔ لارفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج۔ رفث سے مراد عورت سے مبارشت اور اس کے مقدمات حتیٰ کہ زبان سے اس سارے میں کھلی گفتگو بھی نہ چاہیے جو حالت احرام میں حرام ہے فسوق اصطلاحاً نافرمانی کے لئے بولا جاتا ہے یعنی ان باتوں سے جن سے بچنے کا حالت احرام میں حکم ہے اپنی پوری کوشش سے بچے۔ کہ یہ سعادت روز روز حاصل نہیں ہوسکتی اور ذرا ذرا سی کوتاہیاں بھی اس کے حسن و کمال کو ضرور متاثر کرتی ہیں۔ اگرچہ بعض فسوق ایسے بھی ہیں جن سے حج ہی فاسد ہوجاتا ہے جیسے حالت احرام میں وقوف عرفات سے پہلے بی بی سے صحبت کرلی تو حج فاسد ہوگیا بطور جرمانہ قربانی بھی دے گا اور اگلے سال پھر حج بھی کرے گا۔ اسی لئے یہ علیحدہ لارفث کہہ کر بیان فرمایا۔ دوسرے ممنوع امور میں مثلاً بری جانوروں کا شکار کرنا یا شکاری کو بتانا ، بال یاناخن کٹوانا ، خوشبو کا استعمال کرنا۔ مردوں کے لئے سلے ہوئے کپڑے اور سر اور چہرے کا ڈھانپنا اور عورت کے لئے بھی حالت احرام میں چہرے کا ڈھانپنا درست نہیں۔ تو غرض یہ ہے کہ ان جملہ امور سے سخت اجتناب کرے یا اسی طرح کہ اس ہجوم خلائق میں اکثر نوبت جھگڑے کی آتی ہے کبھی سفر کے ساتھیوں سے اور کبھی کھانے پکانے کے معاملے میں کبھی کوئی شے خریدنے یا بیچنے کے وقت اور کبھی طواف وسعی کے درمیان کہ ہر جگہ ایسے مواقع بکثرت آتے ہیں ، عورتوں اور مردوں کا اختلاط جس سے بچنا اس ہجوم میں ممکن نہیں پھر مسلسل سفر اور جگہ جگہ عارضی قیام اور وقت بےوقت کھانے پینے سے تھکاوٹ سے مزاج میں برہمی اور عبادات میں سستی۔ ان سب چیزوں کا سب سے زیادہ موقع یہیں بنتا ہے جس سے بچنا اور پوری کوشش سے بچنا ضروری ہے جس کی ایک ہی صورت ہے کہ نگاہ صرف بیت پر نہ ہو بلکہ صاحب بیت کی عظمت سے دل منور ہو اور لبیک لبیک کی صدائوں سے دل بھی طواف کعبہ میں مصروف ہو۔ اللہ اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ ان تمام مواقع پر بچنے کی کوششیں ، صرف اللہ کی رضاجوئی کے لئے ہوں کہ اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔ حج کے لئے اپنا خرچ ہونا چاہیے : سفر حج مصارف حج کا خوب اہتمام کرو وتزودوا ایسا نہ ہو کہ تم کسی پر بوجھ بنو یا گداگری کرتے پھر رہے ہو کہ چلے تھے اللہ کی رضا حاصل کرنے اور پھر رہے ہیں غیر اللہ کے در پر۔ اپنے دین کو بچانے اور اللہ کی عبادت کے لئے سفر خرچ کا ساتھ ہونا ہی بہترین ذریعہ ہے اسی لئے تو حج فرض ہی صاحب استطاعت پر ہے اور اس کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں بھی کرتے ہیں۔ کہ جو شخص بھی مزدوری کرکے اپنی روزی کما سکتا ۔ اس سے کسی نیکی کی امید بھی مشکل ہے۔ بعض لوگوں کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں جن کی ساری عمر محراب میں اور منبر پر گزرتی ہے مگر وہ حق بات بیان نہیں کر پاتے اسی لئے کہ یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے کاش مزدوری کرکے آتے اور منبر پر بیان کرتے۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں حق بیان کرنے سے نہ روک سکتی۔ سو کم از کم حج جیسی عبادات کے دوران تو انسانوں کی عطا پر نظر نہ ہو۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر عصر حاضر تک انقلابی کام جس ہستی نے بھی کیا ہے اس نے روزی کمانے کے معروف طریقے اختیار کئے اور دینی خدمات کو کبھی ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ خواہ ائمہ اربعہ ہوں اور دیگر ائمہ فقہ یا حدیث و تفسیر یا صوفی اور اہل اللہ کے سرخیل ہوں۔ آپ شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) سے لے کر شیخ احمد سرہندی قدس سرہ العزیزتک تمام کی زندگیوں کے حالات دیکھیں تو یہی بات ہر جگہ کار فرما نظر آئے گی۔ واتقون یا اولی الالباب۔ اور خوف خدا ہی عظمت کی معراج ہے۔ ان تمام محنتوں اور عبادتوں کا ماحصل اللہ سے تعلق اور اس کی ناراضگی کا خوف ہی تو ہے جو انسانوں سے امیدیں وابستہ کرنے سے ضائع ہوجاتا ہے اور یہ ہرگز عقلمندی نہیں کہ مخلوق کو خوش رکھنے کے لئے خالق کو ناراض کردیا جائے۔ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم۔ قبل از اسلام جو رسوم حج کے نام پر باقی تھیں۔ ان میں زیادہ حصہ دنیا کمانے اور نمودونمائش ہی تھا عبادت کا تو نام تھا۔ بڑے بڑے بازار لگتے اور منڈیاں سجائی جاتی تھیں۔ تو یہاں اس کی بھی اصلاح فرمائی کہ اگر دوران سفر حج کوئی شے خرید لی یا فروخت کردی کہ اللہ کی عطا سے فراخی نصیب ہو تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں مگر یہ کہ اسے محض تجارتی سفر بنا کر رکھ دیا جائے اور دولت سمیٹنے کا ایک حیلہ ہرگز درست نہیں۔ یہاں لیس علیکم جناح سے واضح ہے کہ اگرچہ اس کی اجازت ہے مگر اس سے اگر آدمی بچ سکے تو بہتر ہے کہ یہ مقصد اصلی تو نہیں اور اس کا مدار ارادے اور نیت پر ہے۔ جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرحرام کے پاس اللہ کی یاد کرو اور اس طرح کرو جیسے تمہیں بتلایا گیا ہے۔ عرفات ایک مشہور میدان ہے جو حرم سے باہر واقع ہے جس میں حجاج کا پہنچنا اور زوال آفتاب سے مغرب تک قیام کرنا حج کا نہایت اہم فرض ہے یہاں سے لوٹ کر مزدلفہ میں قیام ہوتا ہے جہاں مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں اکٹھی ادا کی جاتی ہیں مشعرحرام ایک پہاڑ ہے جو اسی میدان میں واقع ہے حجاج اسی میدان میں رات گزار کر علی الصبح منی کو لوٹتے ہیں تو فرمایا کہ اگرچہ تجارت کی اجازت ہے مگر مقصد اصلی تو حصول معرفت ہے جس کا واحد ذریعہ ذکر الٰہی ہے اور وہ بھی اس طرح سے جس طرح تمہیں بتلایا گیا ہے۔ کما ھداکم سے یہ واضح ہوا کہ کوئی عبادت یا طریقہ عبادت اس وقت تک مقبول نہیں جب تک اس کی سند سنت رسول ﷺ سے حاصل نہ ہو۔ اب تو یہ حال ہے کہ لوگ فرائض میں تو کسی حد تک احتیاط کرتے ہیں مگر نوافل اور صدقات میں اور ذکرواذکار میں اپنی طرف سے بعض طریقے ایجاد کرلیتے ہیں جیسے کسی بزرگ کے ایصال ثواب کے لئے کوئی خاص رقم یا شیرینی اور پھر کسی خاص دن سے مختص کرلینا دور حاضرہ کا جدید فتنہ کہ اذان سے اول یا آخر بلند آواز سے صلوٰۃ وسلام اور اس قبیل کی بہت سی اشیاء جو عہد رسالت میں یا سنت مبارکہ سے ثابت نہیں ہیں جن کا کرنا خود درست نہ تھا چہ جائیکہ ان پر اس قدر اصرار کہ نہ کرنے والے کو اچھا مسلمان ہی شمار نہ کرنا۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی چیزوں کی نفی ہورہی ہے کہ عبادات میں آدمی کے بس کی بات نہیں کہ جو چاہے کرے ، بلا دلیل شرعی ہرگز قدم نہ اٹھائے۔ یہاں تک قریش نے جو امتیازی حیثیت قائم رکھنے کے لئے طریقہ گھڑ رکھا ہے کہ لوگ تو عرفات سے لوٹیں اور یہ مزدلفہ سے باہر نہ جائیں۔ یہ بھی عہد جہالت کی رسم تھی کہ قریش یہ کہتے ہوئے کہ ہم تو حرم کے مجاور ہیں ہمیں حد حرم سے باہر جانا زیب نہیں دیتا۔ مزدلفہ سے لوٹ آتے تھے چونکہ وہ حد حرم میں ہے اور عرفات باہر۔ وہاں نہ جاتے تو اللہ نے اس کی اصلاح فرمائی کہ ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفرو اللہ ان اللہ غفور الرحیم۔ سب اسی جگہ سے ہو کر پلٹو ، جہاں تک سب لوگ جاتے ہیں اور ہر وقت اللہ سے معافی چاہتے رہو۔ یہاں اصلاح تو عہد رسالت کی رسم کی ہورہی ہے مگر اصول ایسا ارشاد فرمایا کہ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے اس کا ضرورتمند ہے اور وہ یہ کہ بنیادی طور پر سب انسان ہیں اگر مال و دولت یا اقتدار ووقار سے کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ اپنے مقام پر ہے ، اسے انسانوں سے نکال کر کوئی اعلیٰ مخلوق نہیں بناسکتی۔ سو اپنے آپ کو ہمیشہ انسان سمجھو ، عبادات میں بھی اور عام معاشرت میں بھی۔ اور کبھی کوئی شخص اپنے لئے امتیازی صورت اختیار نہ کرے کہ اس سے نفرت اور باہمی دشمنی پیدا ہوگی اور مل کر رہنے سے باہمی اخوت اور محبت۔ یہی شے حضور ﷺ کے آخری خطبہ حج میں ارشاد ہوئی ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ اگر اس طرز معاشرت کو اپنایا جائے تو دنیا سے مزدور اور سرمایہ دار کی جنگ ختم ہوجائے جو دور حاضرہ کی تمام خرابیوں کی بنیاد ہے۔ سب کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور اپنی کوئی امتیازی شان نہ چاہو بلکہ اللہ سے استغفار کرتے رہو کہ اللہ تمہاری ساری خطائیں معاف فرمائے یا دوران حج جو کمی رہ گئی ہے اس سے درگزر فرمائے کہ اللہ بڑا بخشنے والا ہے۔ ذکر الٰہی عیادت کا بیج بھی ہے اور پھل بھی : فاذا قضیتم ھنا سککم فاذکرو اللہ کذکرکم اباء کم اواشدذکرا۔ سو جب ارکان حج پورے کرچکو تو اللہ کا ذکر کثرت سے کرو جس طرح تم اپنے اجداد کا ذکر عہد جہالت میں کرتے تھے اس سے بڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔ عہد جاہلیت میں نام تو حج کا ہوتا تھا مگر اصل ذریعہ اس کو حصول زر یا اظہار تفاخر کا بناتے تھے ۔ اور جب لوٹ کر منیٰ میں پہنچتے تو بڑے بڑے بازار لگتے خریدوفروخت ہوتی اور مجالس قائم ہوجاتی تھیں جن میں اپنے اجداد کے کارنامے بطور تفاخر کے بیان کئے جاتے۔ اللہ کریم نے دونوں کی اصلاح فرما دی کہ نہ تو تجارت بنیادی مقصد ہے۔ اور نہ اس قدر ممنوع کہ آدمی ضرورت بھی پوری نہ کرسکے اور حج میں میلوں ٹھیلوں کی گنجائش نہیں کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں بیشمار موانع ہیں عزیزوں سے مفارقت ، زادراہ کا اہتمام ، بہت سا وقت اور سفر کی مشکلات ، صحت وبیماری ، تو ان مشکلات کے ہوتے ہوئے جس نے حج کی توفیق بخشی ہے اسی کا ذکر کرو ، بہت شدت اور کثرت سے کرو۔ اگر عرفات سے لوٹنے کے بعد بھی تمہیں اپنی بڑائی ہی کے اظہار کا فکر ہے تو گویا تم معرفت باری سے محروم ہی رہے۔ ذکر اور معرفت لازم وملزوم ہیں۔ حصول معرفت کا ذریعہ اگر ذکر ہے تو معرفت کا ماحصل بھی ذکر ہے کہ جب معرفت باری کا کوئی شمہ بھی نصیب ہوجائے تو عظمت باری مستحضر ہوتی ہے اور آدمی اپنی بےبسی اور محتاجی کا مشاہدہ کرتا ہے اور پھر اپنے وجود ، اپنے کمالات ، اپنے اعزازات ومقامات سب اللہ کی عطا کے مختلف مناظر بن کر سامنے آتے ہیں جو کثرت ذکر کا سبب بن جاتے ہیں جیسے بیج درخت کے اگنے کا سبب بھی ہے اور اس کے پھل کے اندر پھر بیج ہی حاصل کے طور پر بھی۔ اسی طرح ذکر ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی۔ یہ تخم بھی ہے اور ماحصل بھی۔ اللہ کے احسانات کے پیش نظر کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔ آج اگرچہ وہاں وہ رسوم تو نہیں ہیں مگر تہذیب جدید کا ڈسا ہوا انسان آج بھی وہاں پارٹیوں اور تفریحات میں وقت کو برباد کرتا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے اور ہر لمحہ یاد الٰہی میں بسر کرنا ہی حاصل سفر ہے بلکہ بعض لوگ تو ان عبادات میں محض دنیاوی چیزوں کے حصول کی مانگتے ہیں حالانکہ اصل زندگی تو آخرت کی ہے جس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ دراصل جس قدر مذاہب باطلہ ہیں انہوں نے دنیوی فوائد کا لالچ دے کر اپنی دکان سجائی ہے اور ہر عبادت کے نتیجہ کے طور پر کوئی نہ کوئی دنیاکا فائدہ ظاہر کیا ہے اسی طرح ہر دیوتا کی خوشنودی پر بھی کسی نہ کسی دنیاوی کامیابی کا حاصل ہونا مقرر کیا ہے مگر اسلام نے فرد کو اس حقیقت ذات اور ابدی زندگی سے آشنا کیا ہے۔ صرف دنیا مانگنا گویا خود کو آخرت سے محروم کرنا ہے۔ جیسے آج بھی لوگوں کو حصول دنیا کے لئے مختلف وظائف بتلائے جاتے ہیں اور لوگ مقامات مقدسہ پر بھی اغراض دنیوی کا پلندہ لئے پھرتے ہیں۔ بلکہ بہت سے حضرات حصول دنیا کے لئے نوافل ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے حضرات کا بزرگوں سے تعلق بھی خواہ وہ زندہ ہوں یا دنیا سے گزر چکے ہوں دنیا طلبی کا ہوتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی دعا اور توبہ سے ہمارے بہت سے کام نکلیں گے ، تجارت میں فائدہ ہوگا۔ مقدامات جیت جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان چیزوں کو درمیان سے نکال دیں تو آپ دیکھیں گے اللہ کے لئے اللہ والوں کے پاس جانے والوں کی تعداد شاید نہ ہونے کے برابر ہو۔ ایسے لوگ جو محض دنیا کے لئے اللہ والوں کے پاس جاتے ہیں یا اور نوافل ادا کرتے یا مقامات مقدسہ کے طویل سفر اختیار کرتے ہیں یہ تو ازلی محروم ہیں کہ مالہ فی الاٰخرۃ من خلاق۔ ابدی راحت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ہاں ! دنیا بھی مانگے کہ سب کچھ اللہ ہی سے مانگنا ہے مگر یوں عرض کرے۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ۔ کہ اے اللہ ! اے میرے پروردگار ! مجھے دنیا بھی دے تو حسنہ ہو۔ یعنی تجھ سے دور کرنے والی اور تیری ناپسندیدہ نہ ہو بلکہ دنیا بھی تیری یاد دلانے والی اور تجھ سے قریب کرنے والی ہو۔ اعمال کی توفیق دے تو مطابق سنت ہو۔ ایسا رزق عطا فرما جو حلال اور طیب ہو یعنی نہ صرف دنیا طلبی مقصد اور نہ دنیا سے بیزاری کی ضرورت۔ کہ دنیا ہی دین بھی ہے کہ انسان اپنی بقاء اپنے اعمال اور عبادات سب میں ضروریات دنیاوی کا محتاج ہے سو دنیا طلب کرے مگر ایسی دنیا جو تع میرات آخرت کا سبب ہو جس پر ابدی زندگی کی راحتوں کا حصول آسان ہوجائے۔ یہاں ان لوگوں کی اصلاح بھی مقصود ہے جو ترک دنیا کو وصول الی اللہ کا سبب کہتے ہیں اور دنیا کے لئے دعا مانگنا خلاف شان جانتے ہیں۔ یہ بھی جہالت ہے۔ اصل قاعدہ یہ ہے اور یہی انبیاء (علیہ السلام) کا طریقہ بھی ہے کہ دنیا کو مقصد نہ بنائے بلکہ آخرت کی فکر کرے اور دنیا کو حصول آخرت کا سبب بنائے اور یہی شے اللہ سے مانگے اور ہمیشہ دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتا رہے کہ خلاف شریعت دنیا کا حصول دراصل دوزخ کی آگ ہے اور جائز طرح سے دنیا کے کاموں کا کرنا بھی عبادت ہے یہی دنیا کا حسن ہے اور اسی پر آخرت کی بھلائی مرتب ہوتی ہے اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ واللہ سریع الحساب وہ سب امور سے پوری طرح آگاہ ہے اور ظاہر و باطن سے واقف تمہیں بہت جلد ان تمام امور کا حساب دینا ہے۔ واذکرو اللہ فی ایام مغدودات۔ ان چند دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں جن سے منیٰ میں قیام ہوتا ہے اور جمرات پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ یہ دن عید کے ہوتے ہیں اور حج کا بھی اختتام ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ان ایام میں بھی یاد الٰہی میں لگے رہو مصروفیت کے دن ہوں یا فراغت کے۔ سفر ہو یا قیام۔ قیام ہو یا عید کوئی دن کوئی لمحہ یا کوئی حال ذکر الٰہی سے خالی نہ ہو۔ اب اگر کوئی دس ذوالحجہ کے بعد بارہ تک رہا اور دعا کرکے واپس ہوا تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر کوئی تیرہ تک رہاتو بھی ٹھیک ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر 12 ذی الحجہ کا سورج منیٰ میں غروب ہو تو پھر تیرہ کو دعا کرکے آئے لیکن اگر بارہ کو دعا کرکے غروب آفتاب سے پہلے منیٰ سے واپس ہوا تو پھر تیرہ کو دعا اس پر واجب نہ رہی ، نیز تیرہ کو دعا زوال آفتاب سے پہلے بھی درست ہے۔ یہ جملہ احکام کیفیات قلبی سے متعلق ہیں یہ سب تو اس کے لئے ہے۔ من اتقیٰ کہ جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ جس کے دل میں اللہ کی طلب اور اس کی ناراضگی کا خوف ہو۔ برخلاف اس کے جو دل عظمت باری سے خالی ہو اور حج بھی اپنی بڑائی کے اظہار کے طور پر کررہا ہو اس کا احکام بجا لانا یاترک کرنا برابر ہی ہے اور اے لوگو ! اللہ سے ضرور ڈرو کہ تمہیں اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حج سے فارغ ہو کر آنے والا گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر آتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا تو گویا جو شخص پہلے بھی نافرمان تھا اور دوران حج بھی سستی اور نافرمانی کرتا رہا اور لوٹ کر آنے پر بھی حال وہی ہے تو گویا اس نے حج کیا ہی نہیں۔ اگر اسے گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوتی تو دل گناہوں سے متنفر ہوجاتا۔ ہاتھ پائوں اللہ کی نافرمانی سے رک جاتے کہ دوران حج بھی تو ہر مقدس مقام پر اس نے گزشتہ سے معافی اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ سو قبولیت حج کی دیل یہی ہے کہ دل دنیا کی محبت سے خالی ہوجائے اور آخرت کی رغبت پیدا ہوجائے۔ اللہ کریم جملہ اہل اسلام کو اس کی توفیق عطا فرمائے ! آمین۔ نتائج کا انحصار دلی کیفیات پر ہے : من الناس من یعجبک قولہ فی الحیوۃ الدنیا ویشھد اللہ علی مافی قلبہ وھوالدالخصام۔ بعض لوگوں کی باتیں بڑی دل فریب ہوتی ہے اور پندو نصائح سے مزین۔ ساتھ ہی وہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ میرے دل میں بھی یہی ہے جو زبان پر ہے مگر یہ سب زبانی جمع خرچ ہوتا ہے ورنہ عملی زندگی میں تو کوئی بات مان کر ہی نہیں دیتے سخت جھگڑالو اور فساد پیدا کرنے والے ہوتے ہیں اور جب محفل سے اٹھتے ہیں تو ایسا کام کرتے ہیں جو روئے زمین پر کھیتوں اور نسلوں کی بربادی کا سبب بنتا ہے ان سب کی ایک صورت تو ظاہراً فساد کرنے کی ہے اور دوسری یہ کہ ہر گناہ کرنے والے نہ صرف نافرمان ہے بلکہ دنیا ومافیہا کو تباہ کرنے کے جرم کا مجرم بھی ہے اور محض زبان سے کہنا اور دل میں کسی کیفیت کا نہ ہونا محرومی ہے۔ اخنس بن شریق ایک شخص تھا جو حضور ﷺ کے سامنے تو بڑی اچھی اچھی باتیں کرتا اور قسمیں کھا کر اپنے مخلص ہونے کا اعلان کرتا مگر زندگی میں اطاعت کی بجائے نافرمانی اور فساد بپا کرتا۔ یہی بات اللہ نے اس کے نفاق پر بطور دلیل ارشاد فرمائی ہے اور فرمایا اللہ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔ حج اور اس کے ارکان تو اس لئے ادا کئے جاتے ہیں کہ عملی زندگی کو بدل دیں۔ اگر یہ نہ کرسکا تو پھر اس نے کیا کیا ؟ کہ اگر اسے ناپسندیدہ باتوں سے منع کیا جائے اور کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تمہیں یہ حرکات زیبا نہیں تو بجائے ڈرنے کے وہ اسے اپنی انانیت کو ایک چیلنج سمجھے اور مزید انہی غلط کاریوں پہ جم جائے ایسے لوگوں کے لئے جہنم ہی سزاوار ہے جو بہت برا ٹھکانہ ہے اور بڑی سخت جگہ۔ ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضاۃ اللہ ، واللہ رئوف بالعباد۔ اس کے مقابل ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے آپ کو بھی بیچ ڈالتے ہیں ۔ سبحان اللہ ! کفار اور منافقین کے مقابل صحابہ ؓ کا مثالی اخلاص بھی ہے۔ حضرت صہیب ؓ نے جب ہجرت فرمائی تو کفار مکہ نے راستہ میں جا گھیرا۔ آپ سواری سے اتر کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا ” اے قریش “ ! میرا ترکش بھرا ہوا ہے اور تم جانتے ہو کہ میرانشانہ خطا نہیں جاتا۔ اس کے بعد میں اپنا نیزہ اور تلوار بھی آزمائوں گا اور جب تک دم ہے تم مجھ تک نہ پہنچ سکو گے کیا یہ بہتر نہیں کہ مکہ میں میرا جو سرمایہ ہے وہ تم لے لو اور میرا راستہ چھوڑ دو “۔ چنانچہ قریش اس پر راضی ہوگئے اور مال کا پتہ پوچھ کر واپس چلے گئے۔ آپ جب خدمت نبوی ﷺ میں پہنچے تو سارا واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے دربار ارشاد فرمایا۔ ” ابایحییٰ ! تمہارا بیو پار نفع بخش رہا “۔ اور صاحب تفسیر مظہری نے لکھا ہے کہ کئی دوسرے واقعات بھی اس کی مثال ہیں جو آیت کا شان نزول ہیں۔ بہرحال یہاں مقصدبیان یہ ہے کہ انسان تمام چیزوں کو خواہ دنیا کے منافع ہوں یا انانیت کے تقاضے ، مرضیات باری پہ قربان کردے۔ حج اس کی عملی تربیت کا سامان ہے گھر ، اولاد ، کاروبار سب سے علیحدہ ہو کر ، آرام قربان کرکے ، ظاہری شان و شوکت چھوڑ کر ، دو ان سلی چادروں میں سروپا برہنہ ” لبیک لبیک “ کہنے کا مقصد تو یہی ہے کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی رضا کے ساتھ ہی رہ سکتی ہیں ورنہ ان کو چھوڑا جاسکتا ہے اور اللہ کی اطاعت ترک نہیں کی جاسکتی ، اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے یعنی جب کمی واقع ہوتی ہے تو اس طرف سے ورنہ اللہ کی بخشش میں کوئی کمی نہیں ہے۔ یا ایھا الذین اھنوا ادخلوا فی السلم کافۃ۔ اے ایمان والو ! اپنے تمام امور میں اسلام کی اطاعت اختیار کرو کہ عبادت ہو یا مزدوری کوئی بھی کام ہو جو حداسلام سے خارج ہو وہ شیطان کی پیروی میں ہوگا جو تمہیں ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ بعض لوگوں نے صرف نماز روزے کو اسلام جانا اور اس کے سوا تمام امور میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور بعض لوگ مسجدوں میں داخل ہوئے تو مساجد سے باہر کی زندگی میں ان کا کوئی حصہ نہ رہا اور تیسرے گروہ نے نمازرروزے کو بھی وقت کا ضیاع جانا۔ یہ سب افراط وتفریط ہے۔ اپنے نظریات و عقائد سے لے کر اعمال سب کو اسلام کا تابع بنائو اور ظاہر و باطن سے اس کے لئے کوشاں رہو۔ نماز کے وقت مسجد میں ، کاروبار کے وقت بازار میں اور جہاد کے وقت میدان میں نظر آئو ! غرض یہ کہ اسلام کی ہی تعلیمات کو اپنا مطمح نظر بنائو۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھو کہ اگر تم ان واضح دلائل کے بعد بھی جو تم تک پہنچ چکے ہیں (جن میں سب سے بڑی دلیل خود نبی کریم ﷺ کی ذات اور اللہ کا کلام اور احکام اسلام) بھٹک گئے تو اللہ بہت زبردست ہے۔ وہ طاقت والا ہے ہر شے کو جاننے والا ہے اور سب کو سزا بھی دے سکتا ہے۔ گو کہ حکیم ہے اور کسی حکمت کی بنا پر چندے سزا نہ دے۔ یہ حال بھی اگرچہ ظاہراً سزا نہ ہوگی مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے سزا ہی ہے کہ کسی کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو تو کیا ایسے لوگ جو ان سب امور کے بعد بھی اپنی اصلاح نہیں کرپاتے ، اس روز کے منتظر ہیں کہ جب تمام امور واقع ہوں گے تو یہ ایمان لائیں گے۔ یعنی اس وقت کا ایمان لانا نافع نہ ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ تمام مقدمات اللہ ہی کے سامنے پیش ہوں گے کوئی دوسری عدالت فیصلوں کی مجاز نہ ہوگی کہ کوئی شخص پیش ہونے سے بچ جائے۔
Top