Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 20
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بےحجاب ہونا اپنی عورتوں سے وہ پوشاک ہیں تمہاری اور تم پوشاک ہو ان کی اللہ کو معلوم ہے کہ تم خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے سو معاف کیا تم کو اور درگذر کی تم سے پھر ملو اپنی عورتوں سے اور طلب کرو اس کو جو لکھ دیا ہے اللہ نے تمہارے لئے اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ صاف نظر آئے تم کو دھاری صبح کی جدا دھاری سیاہ سے، پھر پورا کرو روزہ کو رات تک، اور نہ ملو عورتوں سے جب تک کہ تم اعتکاف کرو مسجدوں میں یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی، سو ان کے نزدیک نہ جاؤ اسی طرح بیان فرماتا ہے اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے واسطے تاکہ وہ بچتے رہیں۔
خلاصہ تفسیر
حکم چہارم رمضان کی راتوں میں جماع
اس آیت روزہ کے بقیہ احکام کی کچھ تفسیر مذکور ہے تم لوگوں کے واسطے روزہ کی شب میں اپنی بیبیوں سے مشغول ہونا حلال کردیا گیا (اور پہلے جو اس سے ممانعت تھی وہ موقوف کی گئی) کیونکہ (بوجہ قرب واتصال کے) وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو خدا تعالیٰ کو (اس کی خبر تھی کہ تم (اس حکم الٰہی میں) خیانت (کر) کے گناہ میں اپنے کو مبتلا کر رہے تھے (مگر) خیر (جب تم معذرت سے پیش آئے تو) اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہ کو دھو دیا سو (جب اجازت ہوگئی تو) اب ان سے ملو ملاؤ اور جو (قانون اجازت) تمہارے لئے تجویز کردیا ہے (بےتکلف) اس کا سامان کرو اور (جس طرح شب صیام میں بی بی سے ہم بستری کی اجازت ہے اسی طرح یہ بھی اجازت ہے کہ تمام رات میں جب چاہو) کھاؤ (بھی) اور پیو (بھی) اس وقت تک کہ تم کو سفیدخط صبح (صادق کی روشنی) کا متمیز ہوجاوے سیاہ خط سے (یعنی رات کی تاریکی سے) تو پھر (صبح صادق سے) رات (آنے) تک روزہ کو پورا کیا کرو،
صبح کی سفیدی کا سفید خط رات کی تاریکی کے سیاہ خط سے متمیز ہوجانے سے مراد یہ ہے کہ صبح صادق یقینی طور سے ثابت ہوجائے،
حکم پنجم اعتکاف
اور ان بیبیوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی (شہوت کے ساتھ) مت ملنے دو جس زمانے میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو (جو کہ) مسجدوں میں (ہوا کرتا ہے) یہ (سب احکام مذکورہ) خداوندی ضابطے ہیں سو ان (ضابطوں) سے (نکلنا تو کیسا) نکلنے کے نزدیک بھی مت ہونا (اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ احکام بیان کئے ہیں) اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے (اور) احکام بھی لوگوں (کی اصلاح) کے واسطے بیان فرمایا کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ لوگ (احکام پر مطلع ہو کر ان احکام کے خلاف کرنے سے) پرہیز رکھیں۔

معارف و مسائل
اُحِلَّ لَكُمْ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ جو چیز اس آیت کے ذریعہ حلال کی گئی ہے وہ اس سے پہلے حرام تھی صحیح بخاری وغیرہ میں بروایت براء بن عازب مذکور ہے کہ ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیبیوں کے ساتھ اختلاط کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے سو جانے کے بعد یہ سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں بعض صحابہ کرام کو اس میں مشکلات پیش آئیں۔ قیس بن صرمہ انصاریٰ دن بھر مزدوری کرکے افطار کے وقت گھر پہنچنے تو گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا کہ میں کہیں سے کچھ انتظام کرکے لاتی ہوں جب وہ واپس آئی تو دن بھر کے تکان کی وجی سے ان کی آنکھ لگ گئی اب بیدار ہوئے تو کھانا حرام ہوچکا تھا اگلے دن اسی طرح روزہ رکھا، دوپہر کو ضعف سے بیہوش ہوگئے (ابن کثیر) اسی طرح بعض صحابہ سونے کے بعد اپنی بیبیوں کے ساتھ اختلاط میں مبتلا ہو کر پریشان ہوئے ان واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس میں پہلا حکم منسوخ کرکے غروب آفتاب کے بعد سے طلوع صبح صادق تک پوری رات میں کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دے دیگئی اگرچہ سو کر اٹھنے کے بعد ہو بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد آخر شب میں سحری کھانا سنت قرار دیا گیا جس کا ذکر روایات حدیث میں واضح ہے اس آیت میں اسی حکم کا بیان کیا گیا ہے،
رَّفَثُ کے لفظی معنی اگرچہ عام ہیں ایک مرد بی بی سے اپنی خواہش پورا کرنے کے لئے جو کچھ کرتا یا کہتا ہے وہ سب اس میں شامل ہے لیکن باتفاق امت اس جگہ اس سے مراد جماع ہے۔
ثبوت احکام شرعیہ کے لئے قول رسول اللہ ﷺ بھی بحکم قرآن ہے
اس آیت نے جس حکم کو منسوخ کیا ہے یعنی سوجانے کے بعد کھانے پینے وغیرہ کی حرمت کو، یہ حکم قرآن میں کہیں مذکور نہیں رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے صحابہ کرام اس حکم پر عمل کرتے تھے (کما راوہ احمد فی مسندہ) اسی کو اس آیت نے حکم الہی قرار دے کر منسوخ کیا گیا اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سنت سے ثابت شدہ بعض احکام کو قرآن کے ذریعہ بھی منسوخ کیا جاسکتا ہے (جصاص وغیرہ)
سحری کھانے کا آخری وقت
حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ اس آیت میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا اور اس میں افراط وتفریط کے احتمالات کو ختم کرنے کے لئے حَتّٰى يَتَبَيَّنَ کا لفظ بڑھا دیا جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے وغیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بےفکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو بلکہ کھانے پینے کو حرام سمجھنا درست نہیں اور تیقن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لئے مفسد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لئے ہو سحری کھانے میں وسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بےپروائی سے کھاتے رہی یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لئے کہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے مانع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ رات سے اذن دیدیتے ہیں، اس لئے تم بلال کی اذان سن کر بھی اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک ابن ام مکتوم کی اذان نہ سنو کیونکہ وہ ٹھیک طلوع صبح صادق پر اذان دیتے ہیں (بخاری ومسلم)
اس حدیث کے ناتمام نقل کرنے سے بعض معاصرین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ اذان فجر کے بعد بھی کچھ دیر کھایا پیا جائے تو مضائقہ نہیں اور جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی کہ صبح کی اذان ہورہی تھی اس کے لئے جائز کردیا کہ وہ جلدی جلدی کچھ کھالے حالانکہ اسی حدیث میں واضح طور پر بتلا دیا گیا ہے کہ اذان ابن ام مکتوم جو ٹھیک طلوع فجر کے ساتھ ہوتی تھی اس پر کھانے سے رک جانا ضروری ہے اس کے علاوہ قرآن کریم نے خود جو حدبندی فرما دی ہے وہ طلوع صبح کا تیقن ہے اس کے بعد ایک منٹ کے لئے بھی کھانے پینے کی اجازت دینا نص قرآن کی خلاف ورزی ہے صحابہ کرام اور اسلاف امت سے جو افطار وسحر میں مساہلت کی روایات منقول ہیں ان سب کا محل نص قرآن کے مطابق یہی ہوسکتا ہے کہ تیقن صبح صادق سے پہلے پہلے زیادہ احتیاطی تنگی اختیار نہ کی جائے امام ابن کثیر نے بھی اس روایات کو اسی بات پر محمول فرمایا ہے ورنہ نص قرآنی کی صریح مخالفت کو کون مسلمان برداشت کرسکتا ہے اور صحابہ کرام سے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا خصوصاً جبکہ قرآن کریم نے اسی آیت کے اخیر میں تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ کے ساتھ فَلَا تَقْرَبُوْھَا فرما کر خاص احتیاط کی تاکید بھی فرمادی ہے،
مسئلہیہ سب کلام ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایسے مقام پر ہیں جہاں سے صبح صادق کو بچشم خود دیکھ کر یقین حاصل کرسکتے ہیں اور مطلع بھی صاف ہے اور وہ صبح صادق کی ابتدائی روشنی کی پہچان بھی رکھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ براہ راست افق کو دیکھ کر عمل کریں اور جہاں یہ صورت نہ ہو مثلا کھلا ہوا افق سامنے نہیں یا مطلع صاف نہیں یا اس کو صبح صادق کی پہچان نہیں اس لئے وہ دوسرے آثار و علامات یا ریاضی حسابات کے ذریعہ وقت کا تعین کرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے لئے کچھ وقت ایسا آئے گا کہ صبح صادق کا ہوجانا مشکوک ہو یقینی نہ ہو، ایسے لوگوں کو مشکوک حالت میں کیا کرنا چاہئے، اس کے متعلق امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس حالت میں اصل تو یہی ہے کہ کھانے پینے پر اقدام نہ کرے، لیکن مشکوک حالت میں تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس وقت صبح ہوچکی تھی تو قضاء اس کے ذمہ لازم ہے جیسے شروع رمضان میں چاند نظر نہ آیا اور لوگوں نے روزہ نہیں رکھا مگر بعد میں شہادت سے 29 کا چاند ثابت ہوگیا تو جن لوگوں نے اس دن کو شعبان کی تیسویں تاریخ سمجھ کر روزہ نہیں رکھا تھا وہ گنہگار تو نہیں ہوئے مگر اس روزے کی قضاء ان پر باتفاق لازم ہے اسی طرح بادل کے دن میں غروب کے گمان پر روزہ افطار کرلیا بعد میں آفتاب نکل آیا تو یہ شخص گناہگار تو نہیں مگر قضاء اس پر واجب ہے،
امام جصاص کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی اور عام طور پر صبح کی اذان ہوئی تھی جس سے صبح ہونے کا یقین لازمی ہے وہ جان بوجھ کر اس وقت کچھ کھائے گا تو وہ گناہگار بھی ہوگا اور قضاء بھی اس پر لازم ہوگی اور مشکوک حالت میں کھائے گا تو گناہ ساقط ہوجائے گا مگر قضاء ساقط نہ ہوگی اور کسی نہ کسی درجہ میں کراہت بھی ہوگی،
اعتکاف اور اس کے مسائل
اعتکاف کے لغوی معنی کس جگہ ٹھہرنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن وسنت میں خاص شرائط کے ساتھ مسجد میں ٹھرنے اور قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے، لفظ فِي الْمَسٰجِدِ کے عموم سے ثابت ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا جس میں جماعت ہوتی ہو غیر آباد مسجد جہاں جماعت نہ ہوتی ہو اس میں اعتکاف درست نہیں یہ شرط درحقیقت مسجد کے مفہوم ہی سے مستفاد ہے کیونکہ مساجد کے بنانے کا اصل مقصدجماعت کی نماز ہے ورنہ تنہا نماز تو ہر جگہ دکان مکان وغیرہ میں ہوسکتی ہے۔
مسئلہروزے کی رات میں کھانا پینا، بی بی سے مباشرت سب کا حلال ہونا اوپر بیان ہوا ہے حالت اعتکاف میں میں کھانے پینے کا تو وہی حکم ہے جو سب کے لئے ہے مگر مباشرت نساء کے معاملہ میں الگ ہے کہ وہ رات میں بھی جائز نہیں اس لئے اس آیت میں اسی کا حکم بتایا گیا ہے،
مسئلہاعتکاف کے دوسرے مسائل کہ اس کے ساتھ روزہ شرط ہے اور یہ کہ اعتکاف میں مسجد سے نکلنا بغیر حاجت طبعی یا شرعی کے جائز نہیں کچھ اسی لفظ اعتکاف سے مستفاد ہیں کچھ رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل سے،
روزے کے معاملے میں احتیاط کا حکم
آخر آیت میں تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا فرما کر اشارہ کردیا کہ روزے میں کھانے پینے اور مباشرت کی جو ممانعت ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حدود ہیں ان کے قریب بھی مت جاؤ کیونکہ قریب جانے سے حد شکنی کا احتمال ہے اسی لئے روزہ کی حالت میں کلی کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے، جس سے پانی اندر جانے کا خطرہ ہو منہ کے اندر کوئی دوا استعمال کرنا مکروہ ہے بی بی سے بوس وکنار مکروہ ہے اسی طرح سحری کھانے میں احتیاط وقت ختم ہونے سے دو چار منٹ پہلے ختم کرنا اور افطار میں دو تین منٹ مؤ خر کرنا بہتر ہے اس میں بےپروائی اور سہل انگاری اس ارشاد خداوندی کے خلاف ہے،
Top