Asrar-ut-Tanzil - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں (گھر والوں سے) اجازت لئے بغیر نہ داخل ہوا کرو۔ اور ان گھر والوں کو سلام (السلام علیکم) کیا کرو یہی (بات) تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف اب معاشرے میں ایسے امکانات ہی کو روکنے کا ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جن سے بےحیائی پھیلنے کا اندیشہ ہو اور اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان دوسرے کے گھر جائے تو بغیر اطلاع اور اجازت کے اندر داخل نہ ہو سوائے اپنے گھر کے مگر اپنے گھر میں جہاں اس کی بیوی یا والدہ ہی رہتی ہو وہاں اجازت حاصل کرنا واجب نہیں مگر مستحب ہے کہ اپنے آنے کی اطلاع کرے خواہ کھانس کر یا اجازت حاصل کرکے اور دوسرے کے گھر میں داخل ہونے کے لیے تو اجازت حاصل کرنا واجب ہے ، اجازت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آواز دے کر اجازت حاصل کرے اور اپنے نام بتائے یا اگر دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ گھر والے باہر سے آواز نہ سنیں گے تو پوچھنے پر اپنا تعارف کرائے یا اگر دروازے پر گھنٹی ہے تو آرام سے بجائے یا اگر اس کا کارڈ پاس ہے تو اندر بھیجے مگر ان سب باتوں میں یہ خیال رکھے کہ کوئی بات ایسی نہ ہو جو گھر والوں کو تکلیف دے ، زیادہ شور نہ ڈالے نیز مناسب ہے کہ اوقات کا خیال رکھا جائے جیسے گرمیوں کی دوپہر وغیرہ کہ اکثر لوگ آرام کرتے ہیں اور اگر اندر آنے کی اجازت ملے تو اہل خانہ پر مسنون طریقے سے سلام کرے کہ داخلہ ، ملاقات یا بات چیت کی ابتدا نیک اور دعائیہ کلمات سے ہو نیز کسی کو تنگی اور پریشانی بھی نہ ہو یا کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو کوئی ملنا نہیں چاہتا مگر ملاقاتی اچانک اندر آگیا جیسے کچھ لوگ کمرے میں گھس کر کہتے ” جی میں اندر آسکتا ہوں “ یہ سب ناجائز ہے ، یہ بھی درست نہیں کہ کوئی اپنے گھر میں کوئی کام لوگوں سے چھپا کر کرنا چاہتا ہے تو اس کا راز فاش ہو بلکہ کسی بھی گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کی جائے داخل ہونے والا مرد ہو یا خاتون کہ حکم ایمان والوں کو ہے صرف مردوں کو نہیں ، حسن معاشرت اور آبرو کی حفاظت کے لیے یہ بہترین طریقے ہیں اور خوبصورت انداز اگر تم سمجھ سکو تو نیز یہ بھی نہ کرو کہ اندر سے کوئی جواب نہیں آیا یا اندر کوئی ہے ہی نہیں تو تم اندر گھسے چلے جاؤ ہرگز نہیں کسی کے گھر میں داخلے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اجازت حاصل کرکے داخل ہوا جائے یا پھر ایک صورت یہ بھی ہے کہ اندر سے داخل ہونے کی اجازت نہ ملے اور کہہ دیا جائے کہ واپس جائیے ملاقات نہیں ہوسکتی تو واپس پلٹ جاؤ ، یہ بہت پاکیزہ اور صاف ستھری بات ہے ، اللہ کریم تمہارے ہر عمل سے باخبر ہیں اور اللہ نے گھر والے کو یہ حق دیا ہے کہ وہ نہ ملنا چاہے تو آپ اس پر ملاقات مسلط نہ کریں نیز حدیث شریف میں اس کی تفصیل یہ ہے ، ملاقات کو آنے والے کا بھی حق ہے اور گھر والے کو بھی چاہیے کہ خوش دلی سے بات سن لے یا ملاقات کرے اور بغیر ضرورت یا مجبور کے لوٹ جانے کو نہ کہا جائے ، اور ایسے گھر جو رہائشی نہ ہوں بلکہ لوگوں کے استعمال کے لیے بنائے گئے ہوں یعنی رفاہ عامہ کے لیے بنائے گئے دکانات ، مساجد ، مدرسے ، خانقاہیں اور سرائے وغیرہ ، ان میں داخل ہونے کے لیے کسی سے اجازت حاصل کرنا ضروری نہیں اور نہ بغیر اجازت داخل ہونے میں کوئی حرج ہے اس لیے کہ ہر داخل ہونے والے کو ان سے استفادہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ، ہاں وہاں کس نیت سے داخل ہونا چاہیے ایسی چھپی بات یا داخل ہو کر کیا عمل کیا ایسی ظاہر بات ان سب کو اللہ کریم جانتے ہیں لہذا ہر کام میں اللہ کی اطاعت مقدم رہے اور یہی احکام کسی سے فون پر بات کرنے کے ہوں گے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ تین بار اجازت طلب کرے نہ ملنے پر سمجھ لے کہ کوئی جواب دینے والا اندر نہیں یا گھر والے ملنا نہیں چاہتے ، ایسے ہی فون کی گھنٹی بھی مناسب حد تک بجائی جائے ، اگر بات لمبی کرنی ہو تو پوچھ لیا جائے کہ وقت ہے تو بات کرلوں ورنہ پھر کسی وقت کرے اور گھر والوں کو بھی چاہیے کہ گھنٹی بجنے پر اسے جواب دیں یہ بھی درست نہیں کہ گھنٹی بجتی رہے اور پرواہ نہ کی جائے ۔ نیز اگلا قدم بےحیائی کو روکنے کا یہ ہے کہ ایسی صورتوں سے بچا جائے جن سے بےحیائی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو لہذا مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں یعنی جن اعضاء کو دیکھنا جائز نہیں مطلق نہ دیکھے یا جس کو شہوت سے دیکھنا جائز نہ ہو اسے شہوت سے نہ دیکھیں اور یوں اپنی آبرو کی حفاظت کریں اور ناجائز طریقے سے شہوت رانی میں مبتلا نہ ہوں ، یہ بہت پاکیزہ انداز ہے اور اگر کوئی لوگوں کی نظر بچا کر ایسا کرنا چاہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اللہ اس سے باخبر ہے نیز مومن خواتین سے بھی کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی آبرو کی حفاظت کریں ، یہ خوبصورت بات کہ آبرو کی حفاظت کے لیے مرد وعورت اپنی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ (جدید سائنٹیفک اپروچ) اسلام نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل فرما دی جس پر جدید سائنس آج پہنچی ہے کہ ہر انسان میں سے کچھ شعاع خارج ہوتی ہیں جن میں جنسی شعاعیں بھی ہیں اور یہ نگاہ سے فضا میں نشر ہوتی ہیں ہر انسان کی شعاعوں کی ایک فریکوینسی ہوتی ہے ، اگر کسی مرد کی کسی عورت سے یا عورت کی مرد سے فریکوینسی ملتی ہو تو جیسے ان کی نگاہیں چار ہوں گی وہ ایک دوسرے کی طرف مائل ہوجائیں گے اور جس قدر فریکوینسی میں زیادہ مطابقت ہوگی اتنی شدت سے وہ خواہش کرنے لگیں گے لیکن اگر ان کی نگاہیں منہ ملیں تو یہ حادثیہ نہیں ہوسکتا ، سبحان اللہ سائنس کتنی دیر بعد ایک حکمت جان سکی اللہ جانے اور کتنی حکمتیں ہوں جو آنے والا وقت بتا دے یا کوئی نہ جان سکے ۔ نیز عورت کی زیب وزینت بھی مردوں کو متوجہ کرنے کا ایک سبب ہے لہذا خواتین کو ہر ایک کے سامنے اپنے بناؤ سنگھار کی نمائش کرنا جائز نہیں سوائے اس کے کہ جو ضروری ہو جیسے ہاتھ پاؤں اور چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت اس لیے ہے کہ اس کے بغیر کام نہیں چلتا ، نیز جب نماز میں ان جگہوں کے کھلا رکھنے کی اجازت ہے تو پردہ کا معیار یہی اختیار کیا گیا لیکن اگر ان پر برقع لیا جائے اور بلاضرورت نہ کھولے جائیں تو صحیح ترین صورت ہے نیز اگر ہاتھ پاؤں کھلے بھی ہوں تو سر کی چادر کو سینے پر بھی ڈال لیا کریں کہ بدن اور اس کے اعضاء کی نمائش نہ ہو گویا ایسے تنگ برقعے جو الٹے اعضائے بدن کو ظاہر کردیتے ہیں بےپردگی کے حکم میں ہوں گے اور خواتین کا بن سنور کر باہر جانا یا پارٹیاں اٹنڈ کرنا ہوٹلوں کلبوں میں پھرنا بازاروں اور پارکوں میں گھومنا سب ناجائز ہے نیز بناؤ سنگھار کرکے ٹلی ویژن پر نظر نواز ہونا بھی حرام ہے ہاں صرف ان لوگوں سے بغیر پردے کے ملنا درست ہے اور زینت کا اظہار بھی کہ بیوی خاوند کے سامنے کرے یا باپ اور خاوند کے باپ سے پردہ نہیں یا اولاد اور خاوند کی اولاد کسی دوسری بیوی سے اس پر پردہ نہ ہوگا یا اپنے بھائی اور بھتیجوں سے یا اپنے بھانجوں سے یا مسلمان خواتین سے پردہ نہ ہوگا ،۔ (غیر مسلم عورت سے پردہ) مفسرین کرام نے یہاں لکھا ہے کہ غیر مسلم عورت سے بھی مومن خاتون پردہ کرے گی نیز کنیزوں سے پردہ نہ ہوگا یعنی غلاموں سے کیا جائیگا یا ایسے مردوں سے پردہ نہ ہوگا جن کے حواس درست نہ ہوں اور محض لوگوں کے طفیلی بن کر جیتے ہوں یا ایسے بچوں سے پردہ نہیں جو بلوغت کو نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات سے بیخبر ہیں نیز پردے میں بھی اپنی زینت کی حفاظت ضروری ہے ، زمین پر پاؤں مارکر پازیب وغیرہ کی جھنکار بھی پیدا نہ کی جائے ایسے ہی چوڑیوں کی کھنک بھی اسی میں شامل ہوگی نیز علماء کے نزدیک ایسا برقع جو مزین ہو اور زینت کا سبب بن رہا ہو جائز نہیں اور مرد وعورت سب اللہ کے روبرو ان کاموں سے توبہ کرو جن سے روکا گیا ہے تاکہ تم کامل ومکمل کامیابی حاصل کرسکو۔ بےحیائی کا ایک سبب نکاح نہ کرنا بھی ہے لہذا ایسے مرد یا خواتین جو بغیر شادی کے ہوں ان کی شادیاں کرو اس میں کنوارے ، رنڈوے سب شامل ہیں یعنی بلاوجہ کسی کو نکاح کے بغیر رہنا درست نہیں اور محض رواجات کی قید میں جائز راستے روک کر بےحیائی کو رواج نہ دیا جائے نیز غلام اور لونڈیاں بھی اگر نکاح کی اہلیت رکھتی ہوں یعنی حقوق ادا ک سکتی ہوں تو ان کے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ بنو اور یہ نہ دیکھو کہ بندہ محض غریب ہے شادی نہ کرے یا اس کی اولاد نہ ہو کہ روزی دینا اللہ کا کام ہے وہ چاہے تو غریب کو اولاد کے ہوتے ہوئے غنی کر دے اور چاہے تو غنی کو بغیر اولاد کے بھی فقیر کرسکتا ہے کہ اللہ ہی وسعت والا ہے بندے تو سب ہی فقیر ہیں اور وہ سب کے حال سے واقف ہے ۔ (خاندانی منصبوبہ بندی حرام ہے اس کے اشتہارات بھی ناجائز ہیں) علماء کے نزدیک خاتون کی صحت وغیرہ تو ایک جواز ہے کہ ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے جس میں قدرتی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہ ہو جیسے آپریشن وغیرہ مگر وقتی طور پر مانع حمل طریقہ اپنایا جائے مگر یہ خاندانی منصوبہ بندی کہ وسائل پر بوجھ نہ بڑھے حرام ہے اس کی تشہیر بھی ناجائز اور حرام ہے کہ وسائل اللہ کریم کے دست قدرت میں ہیں اور اولاد کی تولید روکنے کی بجائے وسائل کا ضیاع روکنا ضروری ہے ۔ اور کسی میں نکاح کی استعداد ہی نہ ہو کہ مفلسی اور بےروزگاری وغیرہ ہو تو اپنے نفس کو قبول میں رکھے ضبط کرے اور محنت کرے کہ اللہ اسے غنی کر دے یا اس کے حالات بہتر ہوجائیں یا کوئی مرض نکاح میں مانع ہو تو علاج کرے وغیرہ یعنی نکاح کرنے والا یہ سمجھے کہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرسکے گا تو پھر صبر کرے جب تک اللہ اس کی استعداد عطا فرمائیں پھر اصلاح معاشرہ کا اگلا اہم قدم یہ ہے کہ غلام یا کنیز اگر مکاتب ہونا چاہیں تو جس طرح یہ حکم تھا کہ غلاموں اور کنیزوں کا شادیاں کرنے کا حق دیا جائے بشرطیکہ وہ حقوق زوجیت ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں کہ اگر انہیں مجبور وپابند رکھا گیا تو معاشرے میں بےحیائی پھیلنے کا اندیشہ موجود رہے گا ، ان کے لیے اور سہولت پیدا فرمائی کہ اگر مکاتب بننا چاہیں ، مکاتب کا معنی ہے کہ مالک سے کوئی رقم طے کرلے اور محنت مزدوری کرکے اتنی رقم ادا کردے تو خود بخود آزاد ہوجائے گا لیکن شرط کے ساتھ اگر ان میں بھلائی دیکھو تب یعنی ان کا آزاد کرنا قومی مصلحت کے خلاف نہ ہو کہ آزاد ہو کر دشمنوں کو جاسوسی کرے اور جا کر مسلمان حکومت کے راز بتائے ۔ (غلام اور کنیزیں) چونکہ اسلام نے غلام صرف ان لوگوں کو بنایا ہے جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں اور انہیں کے گھر والوں کو کنیز بنناپڑا ، اگر میاں بیوی قید ہوئے تو دونوں غلام تو ہوں گے مگر میاں بیوی رہیں گے جو مرد اکیلے قید ہوئے غلام ہوئے اور خواتین کنیزیں جبکہ دوسری اقوام جو اسلام پر طنز کرتی ہیں میدان کار زار میں شکست کھانے والوں ان کے اہل خانہ اور پوری قوم سے جو جنگ میں شریک نہ تھے ان سے بھی ذرا اقوام عالم کا اور یہود ونصاری کا خصوصا سلوک دیکھئے اور پھر مواز نہ کیجئے اسلام نے شکست خوردہ کے قتل عام کی اجازت نہیں دی جو جنگ میں شریک نہ تھے انہیں امن دیا جائے ، گھر اور فصلیں اجاڑی نہ جائیں ، عبادت خانے محفوظ رکھے جائیں ، ہاں جو لوگ لڑ کر شکست کھاگئے ان کی آزاد سلب کرکے انہیں غلام بنا دیا جائے ان کو مذہبی آزادی ہوگئی ، بات بات پر انہیں آزاد کرنے کی ترغیب اچھا کھلانے اور زیادہ کام جو وہ نہ کرسکیں نہ لینے کی تاکید پھر اگر اس قابل ہوں تو شادی کی اجازت اگر محنت کرکے آزاد حاصل کرنا چاہیں تو معاہدہ کیا جائے مگر وہ بات دیکھ لی جائے کہ جس جرم میں غلام بنا تھا پھر وہی نقصان تو نہ دے گا کنیز کی آبرو صرف مالک پر حلال ہے کوئی دوسرا میلی نظر سے نہ دیکھے بھلا جنگی مجرموں کو بھی اتنے حقوق اور یہ حسن معاشرت اسلام کے علاوہ کہاں نظر آتا ہے اب اس پر مزید اضافہ کہ انہیں اللہ جل جلالہ کے مال سے جو اس نے تمہیں عطا کر رکھا ہے ۔ دے کر رہائی میں ان کی مدد بھی کرو ۔ (اصلاح معاشرہ اور معاشیات) کسی بھی معاشرے کی روح اس کا معاشی نظام ہوتا ہے اور دنیا میں اسلام کے علاوہ دو قسم کے معاشی نظام معروف اور زیر عمل ہیں ، اول سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں انسان ہر چیز پر ملکیت کا آزادانہ حق رکھتا ہے جس طرح چاہے حاصل کرے اور جہاں چاہے خرچ کرے ، اس نظام نے کچھ لوگوں کو امراء اور روساء بنا دیا جبکہ باقی لوگ ان کی غلامی میں پس گئے ، دوسرا نظام سوشلزم یا اشتراکیت کا ہے جو کسی بھی بندے کو حق ملکیت نہیں دیتا ، سب کام کریں اور حاصل قومی خزانے میں جائے اور وہ خزانہ سب کی ضروریات کا کفیل ہو ، یہ پہلے نظام سے بدتر ثابت ہوا اور سارے انسانوں کو بدترین غلامی میں جکڑ دیا ، یہ سب کچھ سامنے ہے تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں مگر اسلامی نظام معاشیات کی بنیادی بات یہ بتانا ہے کہ ہر شے اللہ کی ملکیت ہے لہذا اسے ان حدود وقواعد کے اندر رہ کر حاصل کیا جائے جو اللہ جل جلالہ نے مقرر فرمائے ہیں ، حصول کے بعد حاصل کرنے والا محض امین ہے مال اللہ جل جلالہ ہی کا ہے لہذا اسے ان جگہوں پہ خرچ بھی کیا جائے جہاں اللہ جل جلالہ کا حکم ہے ، اچھا کھائے ، اچھا پہنے مگر فضول خرچی نہ کرے اور جو لوگ حصول مال میں کسی کمزوری کے باعث پیچھے رہ گئے ، ان کی مدد بھی کرے لہذا ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے ان کی مدد کرو یعنی اپنا معاہدہ پورا کرنے کے لیے وہ محنت بھی کریں اور اس میں ان کی مدد بھی کی جائے اور غلاموں یا کنیزوں کا ناروا کاموں پہ مجبور نہ کیا جائے گا ، قبل از اسلام کی غلامی اسلامی غلاموں سے کلی طور پر الگ شے ہے لہذا عہد جاہلیت میں جسے چاہتے پکڑ کر غلام بنا کر بیچ دیتے اور کنیزوں سے لوگ پیشہ کرواتے اور دولت کماتے تھے ، اسلام نے جہاں غلام بنائے جانے کے لیے ایک بہت بڑا جرم بنیادی شرط قرار دیا جس کی سزا قتل ہونا چاہیے تھی مگر اسلام نے آزادی سلب فرما کر اصلاح اور توبہ کی مہلت دی وہاں کنیزوں سے حرام کاری کو پوری شدت سے حرام قرار دے کر فرمایا کہ کنیزیں بھی انسان ہیں اور کوئی بھی انسان فطری حیا سے عاری نہیں ہوتا ، لہذا جب تک اس میں انسانیت کی رمق باقی ہو وہ ان چیزوں سے سخت نفرت کرتا ہے تو پھر سارا جرم اس مجبور کرنے والے کے سر ہوگا اور اللہ ان مجبوروں کو بخشنے اور ان پر رحم کرنے والا ہے لہذا ایسا کرنا اسلام میں حرام ہے ، اللہ نے تمہیں خوبصورت واضح دلائل کے ساتھ اور اگلی قوموں کے تاریخی حوالوں کے ساتھ ساری بات بتا دی ہے کہ جو لوگ اللہ سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں وہ ان باتوں سے نصیحت حاصل کرکے اللہ کی ناراضگی سے بچنے کی راہ اختیار کریں ۔
Top